سید نبیل اختر:
واٹر کارپوریشن کراچی نے آبادیوں کا پانی فیکٹریوں کو بیچ دیا ہے۔ جس کے بعد شہر کی دو درجن سے زائد آبادیوں کے مکین میٹھے پانی کی شدید قلت کا شکار ہوجائیں گے اور لامحالہ انہیں بھی ٹینکروں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ ان آبادیوں کی اکثریت غریب اور لوئر مڈل کلاس گھرانوں پر مشتمل ہے۔ جن کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی جوکھم کا کام ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق دھابیجی سے 84، 66 اور 54 انچ کی لائن کے ذریعے سائٹ سپرہائی وے، معمار، گودھرا، سرجانی، نیو کراچی، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، منگھوپیر، اتحاد و بلدیہ ٹاؤن کو ایک کروڑ گیلن سے زائد یومیہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے 60 لاکھ گیلن پانی صنعتوں کو فراہم کردیا جائے گا۔
واٹر کارپوریشن کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برس سے یومیہ 3 ایم جی ڈی پانی مذکورہ لائنوں سے کھارے پانی کے متبادل نظام کے نام پر چوری کرکے فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ جس کے باعث ٹیل ایریاز کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ رینجرز آپریشن میں سب سوائل واٹر ٹھیکیداروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے بعد مذکورہ آبادیوں کو پانی کی بہتر سپلائی شروع ہوسکتی تھی۔ لیکن کارپوریشن نے اپنی تجوری میں تقریباً آٹھ کروڑ روپے ماہانہ بھرنے کیلئے شہریوں کا پانی صنعتوں کو فروخت کردیا ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق سائٹ سپرہائی وے کی سولہ فیکٹریوں کو کروڑوں روپے وصولی کے بعد واٹر کارپوریشن کے شعبہ ریونیو اینڈ ریسورس جنریشن نے سینکشن آرڈرز جاری کردیئے ہیں۔ جبکہ 50 سے زائد درخواستیں منظوری کے مراحل میں ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب سینکشن آرڈرز کے مطابق پلاٹ نمبر 31 سیکٹر 6 سی نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا کراچی میں قائم میسرز حسن ٹیکسٹائل کیلئے عامر حسن نے ایک انچ کے کنکشن کیلئے درخواست دی تھی۔
قانون کے مطابق مذکورہ کمپنی سے کنکشن چارجز کی مد میں 24 لاکھ 14 ہزار 475 اورسیکورٹی ڈپازٹ کی مد میں 2 لاکھ 41 ہزار 448 روپے وصول کیے گئے ہیں۔ سائٹ سپر ہائی وے اسکیم 33 میں قائم المکہ آئس فیکٹری کے مالک سے ایک انچ کے کنکشن کیلئے مجموعی طور پر ساڑھے 26 لاکھ روپے سے زائد وصولی کی گئی اور اسے بھی سینکشن سرٹیفکٹ جاری کردیا گیا۔ پلاٹ نمبر ایچ 160 اے فیز ٹو سائٹ سپر ہائی وے میں قائم ایتوپیا نامی گارمنٹ فیکٹری نے کمپنی ڈائریکٹرز کے نام پر ایک، دو اور تین انچ کے کنکشنز کے سینکشن سرٹیفکٹس حاصل کرلئے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق رضوان نیاز کے نام سے ایک انچ کے کنکشن کیلئے موصول درخواستوں پر ساڑھے 52 لاکھ سے زائد، جبران نیاز کے نام سے موصول درخواست پر دو انچ کے کنکشن کیلئے ایک کروڑ 6 لاکھ 3 ہزار 690 روپے اور عدنان نیاز کے نام سے تین انچ کنکشن کی درخواست پر 2 کروڑ 12 لاکھ 47 ہزار380 روپے وصول کیے گئے ہیں۔ اس طرح ایک گارمنٹ فیکٹری نے پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے واٹر کارپوریشن میں مجموعی طور پر 3 کروڑ 71 لاکھ 62 ہزار 916 روپے جمع کرائے ہیں۔
ایگزیکٹو انجینئر ایچ ٹی ایم انجینئر عبدالواحد شیخ کے مطابق مذکورہ سینکشن آرڈرز پر اب تک دو فیکٹریوں حسن ٹیکسٹائل اور مکہ آئس کو کنکشن دے دیئے گئے ہیں۔ جبکہ دیگر کے کنکشن ہونا باقی ہیں۔ جنہیں سینکشن آرڈرز مل چکے ہیں، انہیں کنکشن فراہمی میں واٹر کارپوریشن کی جانب سے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں۔
واٹر کارپوریشن کے ذرائع نے بتایا کہ ان فیکٹریوں میں سے بعض نے ایک انچ کنکشن حاصل کرکے 12 انچ کے کنکش لینے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ جس میں ایچ ٹی ایم کا واٹر کارپوریشن کا عملہ فیکٹری مالکان سے ملا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں ایتھوپیا انڈسٹری نے ایک، دو اور تین انچ کنکشن کے سینکشن آرڈرز لے کر 84 انچ قطر کی مرکزی لائن سے 12 انچ کے کنکشن لینے کی کوشش کی۔ جسے اینٹی تھیفٹ سیل نے ناکام بنادیا۔
اینٹی تھیفٹ سیل کے ذمہ دار نے موقع پر پہنچ کر 12 انچ قطر کا سینکشن آرڈر طلب کیا۔ جس پر ایتھوپیا انڈسٹری اور واٹر کارپوریشن کے اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ انہیں کنکشن کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور موقع پر موجود انجینئر ظہیر شیخ نے کہا کہ 84 انچ کی لائن حب ریزروائر کیلئے مختص ہے۔ اس سے ایک انچ کا کنکشن بھی نہیں دیا جاسکتا۔
اس معاملے پر لائن کے ایگزیکٹو انجینئر عبدالواحد شیخ نے کہا کہ صنعتوں کو قانون کے مطابق کنکشن فراہم کیے جائیں گے۔ مذکورہ انڈسٹری کے کنکشن پر پانی مافیا نے رکاوٹ ڈالی تھی۔ اب وہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ ایچ ٹی ایم کے کسٹوڈین کا کہنا تھا کہ مذکورہ تمام سینکشن آرڈرز جاری ہوجائیں گے تو یومیہ صنعتوں کو تقریباً تین ایم جی ڈی ( تیس لاکھ گیلن) پانی فراہم کردیا جائے گا۔ جبکہ آبادیوں کو بھی سپلائی جاری رہے گی۔ ان صنعتوں سے پہلی بار ریونیو ملنا شروع ہوگا۔ جو واٹر کارپوریشن کی بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں ایک ہزار سے زائد فیکٹریاں چوری کا پانی خرید کر اپنا سسٹم چلارہی تھیں۔ جو اب تقریباً بند کردیا گیا ہے۔ اگر یہ تمام فیکٹریاں واٹر کارپوریشن کے ٹیکس نیٹ میں شامل ہوجائیں تو واٹر کارپوریشن کو ماہانہ اربوں روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ جو پانی مافیا کی جیبوں میں جارہے تھے اور ان کا آدھا حصہ واٹر کارپوریشن کے کرپٹ افسران، پولیس اور سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں کو جارہا تھا۔
واٹر کارپوریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق پانی مافیا کا سیٹ اپ ختم کرنے سے صوبائی حکومت کے بعض اعلیٰ عہدیداروں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ کراچی کی یہ صنعتیں پہلی بار ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئی ہیں۔ اس سے قبل ان فیکٹریوں کو پانی مافیا کھارے پانی کے نام پر میٹھا پانی سپلائی کرتی تھیں۔
کراچی کے تمام صنعتی علاقوں میں مذکورہ مافیا نے میٹھے پانی کی لائنوں میں نقب لگا کر فیکٹریوں کیلئے پانی کا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ جسے رینجرز کی مدد سے اب توڑ دیا گیا ہے۔ آج بھی پانی کی چوری ناپنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بلک کی لائنوں کے اطراف کے علاقہ مکین پانی کیلئے رو رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ پانی کی چوری جاری ہے۔ جب پانی کی چوری روکنے کیلئے کے تھری لائن پر آپریشن کیا گیا تو لیاری کے مکینوں کو ٹیل ایریاز تک پانی کی فراہمی شروع ہو گئی۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں پانی کی چوری میں ملوث سب سوائل کی واٹر مافیا نے بھرپور آپریشن کے بعد کراچی کے بااثر افراد سے رابطے کیے اور اپنے غیر قانونی کام کو قانونی چھتری فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس ضمن میں واٹر بورڈ حکام کو کھارے پانی کے بور پر ادائیگی کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی اور کھارے پانی کے بڑے ٹھیکیداروں نے سب سوائل واٹر کے لائسنس کیلئے فی کس ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے رشوت بھی ادا کی۔ بعد ازاں 21 اپریل 2022ء کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈائریکٹر پرسونل امین تغلق نے No.KW&SB/Committee/DP/HR/IV/1362 دفتری حکم نامہ جاری کیا۔ جس کے تحت سب سوائل واٹر کے کام میں ملوث 34 کمپنیوں کو لائسنس جاری کر دیا گیا۔
اس حکمنامے میں 34 لائسنسز کے علاوہ کسی دوسرے ٹھیکیدار کو لائسنس جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ اسکیم 33 اور اطراف میں سب سوائل واٹر کے بورز کی آڑ میں بڑے پیمانے پر میٹھے پانی کی لائنوں سے پانی چوری کیا گیا۔ جس پر رینجرز نے واٹر کارپوریشن حکام کے ساتھ کارروائیاں کیں اور سینکڑوں غیر قانونی کنکشن اکھاڑ دیے۔
’’امت‘‘ کو تھانہ سائٹ سپر ہائی وے میں درج ہونے والے ایک مقدمہ کی نقل موصول ہوئی۔ جس کے متن میں بتایا گیا کہ غیر قانونی کنکشن اور پانی چوری کی واردات مافیا کے کارندے اجمل اور وحید چلارہے تھے۔ اسسٹنٹ انجینئر واٹر کارپوریشن ظہیر حسین کی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر 1474/2023 درج کیا گیا۔ مدعی مقدمہ نے الزام عائد کرتے ہوئے بیان دیا کہ واٹر کارپوریشن نے سی ای او کی ہدایت پر پاکستان رینجرز سندھ اور کراچی پولیس کے تعاون سے پورے کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرینٹ اور غیر قانونی پانی کے کنکشن کے خاتمے کیلیے تیزی سے کارروائی کا آغاز کیا۔
ندی کنارے سکھیہ گوٹھ اسکیم 33 کراچی سے گزرنے والی 54 انچ قطر کی مین لائن پانی پر اینٹی تھیفٹ سیل کے آپریشن انچارج ندیم مقبول نے دیگر عملے اور ہیوی مشنری کے ساتھ کارروائی شروع کی تو چھ انچ قطر اور چار انچ قطر کا ایک ایک کنکشن برآمد ہوا۔ جن کو منقطع کیا گیا۔
ذریعہ سے معلوم ہوا کہ یہ کنکشن عبدالوحید ولد عبدالوہاب، اجمل خان ولد قائم خان اور سکندر ولد نثار احمد نے کروائے تھے۔ جبکہ ان کے ذریعے پانی چوری کر رہے تھے۔ لہذا میرا دعویٰ ملزمان بالا 54 انچ کی پانی کی لائن کو توڑ کر پانی چوری کر رہے تھے۔ ان کے اس عمل سے واٹر کار پورشن کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔