افغانستان کے جنوبی صوبہ پکتیکا کے ضلع گومل میں گاڑی پر ڈرون حملہ کیا گیا، فائل فوٹو
افغانستان کے جنوبی صوبہ پکتیکا کے ضلع گومل میں گاڑی پر ڈرون حملہ کیا گیا، فائل فوٹو

افغانستان پرامریکی ڈرون پروازوں میں اضافہ

محمد قاسم :

افغانستان پر امریکی ڈرون پروازوں میں اضافہ ہو گیا۔ امریکی ڈرون MQ9، ریپر اور پریڈیٹر صبح سے شام، رات اور بعض اوقات دوپہر کو بھی قندھار، کنڑ، ننگرہار، ہرات اور شمالی افغانستان پر پروازیں کر رہے ہیں۔ جس سے طالبان کو سخت پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔

طالبان کے اہم رہنمائوں مولوی یعقوب، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور خفیہ ادارے کے سربراہ مولوی واثق سمیت تقریباً 19 رہنمائوں کی سیکیورٹی میں تبدیلی کرنے کے علاوہ ان کی سرگرمیوں میں کمی کر دی گئی ہے اور بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

امریکی حکام کا موقف ہے کہ ڈرون طیاروں کا مقصد داعش کے رہنمائوں کا سراغ لگانا ہے اور شام سمیت عراق سے ممکنہ طور پر داعش کے رہنما افغانستان آنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق روس پر داعش کے حملے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یورپ میں بھی اس طرح کے حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ امریکی ڈرون بحیرہ عرب میں واقع بیڑے سے پروازیں کر رہے ہیں۔ جبکہ طالبان کو شبہ ہے کہ یہ طیارے پاکستانی سرحد سے پرواز کر رہے ہیں۔ تاہم اس وقت ڈرون کا کوئی فلیٹ پاکستان میں موجود نہیں۔ طالبان نے چین سے ان ڈرون طیاروں کو روکنے کیلئے مدد مانگ لی ہے اور چین سے J-21 نامی ریڈار افغانستان میں نصب کرنے کی درخواست کی ہے۔

ذرائع کے مطابق پہلے چین نے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم بشام میں چینی انجینئرز پر حملے میں ٹی ٹی پی اور افغان شدت پسندوں کے ملوث ہونے کی تحقیقات کیلئے چین سے آنے والی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ کے بعد چین نے طالبان کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے مطابق چین طالبان سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے مفادات پر حملوں کے حوالے سے بات چیت کرے گا۔

چینی حکام نے طالبان کے ساتھ اپنی ٹیم کی حتمی رپورٹ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میں جاری منصوبے چین کیلئے پاکستان سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خاص کر گوادر بندرگاہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر طالبان افغانستان میں موجود شدت پسندوں کو لگام نہیں دیں گے تو چین اپنے فیصلوں پر نہ صرف نظرثانی کرے گا۔ بلکہ سفارتی عملہ شاید واپس بلانا پڑے گا۔

ذرائع کے مطابق بشام حملے کے بعد افغان طالبان کے تین اہم رہنمائوں نے چینی حکام سے ملاقات کی ہے اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس موقع پر چینی حکام نے طالبان رہنمائوں کو بتایا کہ ٹی ٹی پی طالبان کے فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی ذمہ دار بھی ٹی ٹی پی ہے۔ اس لیے داعش کے خلاف افغان حکومت کی مدد کیلئے چین تیار ہے۔ تاہم افغان طالبان اپنے مسئلے کو مقامی تناظر میں دیکھنے کے بجائے عالمی تناظر میں دیکھیں۔

دوسری جانب پاکستان نے بشام حملے کی رپورٹ طالبان حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس رپورٹ کی بنیاد پر حملے میں ملوث افراد کیخلاف خود کارروائی کرنے یا ان کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ انکار کی صورت میں طالبان کو آگاہ کیا جائے گا کہ پاکستان ان گروپوں کے خلاف کارروائی میں آزاد ہوگا۔ پاکستان نے اس حوالے سے چین سے بھی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق چینی حکام طالبان حکومت کو پاکستان کے تحفظات دور کرنے اور افغانستان کی ترقی کیلئے شدت پسندوں کو افغانستان سے نکالنے کے حوالے سے بھی بات چیت کریں گے۔ تاہم افغان طالبان ڈرون طیاروں کی پروازوں کو پاکستان اور امریکہ کی جانب سے نئی فوجی تعاون کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور چین کے ساتھ اس پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کو ڈرون طیاروں کے لیے اڈے فراہم نہ کریں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔ تاہم ذرائع کے مطابق پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر کارروائیوں سے روکا جائے۔