امت رپورٹ:
تحریک انصاف کو عید بعد بڑے کریک ڈاؤن کا خوف ہے۔ اوپر سے ناکام ریلیوں نے اس کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم ایسے میں چھ ججز کے خط کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے پی ٹی آئی کو خاصی ڈھارس دی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس ایشو کے سبب حکومت اور مقتدرہ بیک فٹ پر آگئی ہیں۔ لہذا عید بعد اسے حکومت کی جانب سے جس بڑی کارروائی کا خدشہ ہے، اگر کارڈز کو درست طریقے سے کھیلا جائے تو اس امکان کو کم کیا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے اسلام آباد سیکرٹریٹ میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا کہ مرکزی دفتر آنے والے رہنماؤں میں سے بیشتر اس خوف کا اظہار کررہے تھے کہ عید کے بعد پارٹی، حکومت کے خلاف ایک بھرپور کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جبکہ قانونی محاذ پر بھی 9 مئی کے کیسز کے تحت سزاؤں میں تیزی اور مزید گرفتاریاں ہوں گی۔
ذرائع کے بقول پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں آنے والے ہر دوسرے رہنما سے یہی سننے کو مل رہا تھا کہ وہ ان خدشات کا اظہار اپنی معلومات کی بنیاد پر کررہا ہے۔ ان وسوسوں کے درمیان پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کے نام پر ریلیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ تاکہ کسی نئے کریک ڈاؤن سے نمٹنے کے لیے کارکنوں کو متحرک کیا جاسکے۔ تاہم یہ ریلیاں مسلسل ناکام رہیں ، جس نے مایوسی بڑھا دی۔ ذرائع نے اعتراف کیا کہ خوف کی وجہ سے پارٹی کارکنان اور سپورٹرز فی الحال باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ 9 مئی کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن کے اثرات اب تک باقی ہیں۔
واضح رہے کہ 8 فروری کے انتخابات سے پہلے عمران خان نے ملک بھر میں اپنے امیدواروں کو متعلقہ انتخابی حلقوں میں ریلیاں نکالنے کی کال دی تھی، لیکن پولیس نے کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کیا جس کے باعث پارٹی متاثر کن ریلیاں نکالنے میں ناکام رہی۔ پھر عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے دھاندلی کو لے کر ریلیوں کی سیریز شروع کرنے کی کوشش کی جو اب تک بری طرح ناکام رہی ہے۔
واقفان حال کے مطابق کارکنوں اور سپورٹرز نے پی ٹی آئی کو ووٹ تو دیا، لیکن وہ مار کھانے کو تیار نہیں۔ چند روز پہلے پی ٹی آئی کے مضبوط سیاسی گڑھ خیبرپختونخوا میں بھی عوامی شو انتہائی بدنظمی کا شکار ہو گیا ،جہاں اس کی اپنی حکومت ہے۔ البتہ ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں انتظامی مشینری استعمال کرکے پی ٹی آئی کچھ لوگ نکالنے میں کامیاب رہی۔ تاہم لاہور میں کارکنوں نے احتجاجی ریلی کی کال پر کان نہیں دھرے ، جہاں پچھلی ریلی میں ٹولیوں کی شکل میں چند لوگ نکلے تھے جنہیں پولیس نے مختصر وقت میں منتشر کردیا تھا۔
ناکام ریلیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ایسے میں پی ٹی آئی نے تئیس مارچ کو جلسے کا اعلان کردیا۔ لیکن جلسہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور خاموشی کے ساتھ یہ عوامی اجتماع ملتوی کردیا گیا۔ جلسے کی نئی تاریخ تیس مارچ مقرر کی گئی۔ حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کیا تو پی ٹی آئی عدالت چلی گئی۔ یوں اسے جلسے کی اجازت مل گئی لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی جلسہ کرنے سے قاصر رہی اور بغیر کوئی وجہ بتائے جلسہ ملتوی کردیا گیا۔ اب کہا جارہا ہے کہ یہ جلسہ 6 اپریل کو ہوگا۔ لیکن اس کے زیادہ امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔
دراصل پی ٹی آئی کو جلسے میں لوگوں کے نہ آنے اور حکومتی کریک ڈاؤن کا خوف ہے۔ یہی خوف ، جلسے بار بار ملتوی ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں گھری پی ٹی آئی کو اوپر سے عید بعد حکومت کی بڑی کارروائی کا خوف ستا رہا ہے۔ ایسے میں ہائی کورٹ کے چھ ججز کا خط منظر عام پر آیا جسے پی ٹی آئی اپنے لئے امید کی ایک کرن تصور کر رہی ہے اور اس نے اس ایشو کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے خیال میں اس خط کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پر کردیا ہے۔ چنانچہ اس معاملے کو مسلسل گرم رکھ کر اور دھاندلی کی ڈفلی بجا کر وہ حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ جبکہ عید کے بعد اس دباؤ میں مزید اضافے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے، تاکہ ممکنہ کریک ڈاؤن کو کاؤنٹر کیا جاسکے۔ اس حکمت عملی کو قابل عمل بنانے کے لیے پی ٹی آئی نے الیکشن کی زخم خوردہ دوسری پارٹیوں کو بھی ساتھ ملایا ہے۔
منادی کرائی گئی ہے کہ حکو مت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مشترکہ احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ حالانکہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی یہ گرینڈ الائنس کھال بچانے کے لیے تشکیل دے رہی ہے، جو بظاہر پی ڈی ایم کا چربہ ہے۔ لیکن اس 6 رکنی الائنس میں شامل زیادہ تر پارٹیوں کو مرکز میں ایک دو سے زیادہ سیٹیں نہیں ملتیں۔ الائنس کی سربراہی وہ محمود اچکزئی کریں گے جن کا تمسخر عمران خان اپنے جلسوں میں اڑایا کرتے تھے۔
چھ رکنی الائنس میں تحریک انصاف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی (مینگل) ، جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف اس وقت سنی اتحاد کونسل میں ضم ہے۔ لیکن الائنس میں اسے ایک الگ پارٹی کے طور پر رکھا گیا ہے۔ تکنیکی لحاظ سے یہ پانچ رکنی الائنس ہے۔ منگل کے روز مجلس وحدت المسلمین کی میزبانی میں اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس ہوا۔ جس میں محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، لیاقت بلوچ، صاحبزادہ محمد رضا، علامہ راجہ ناصر عباس اور بیرسٹر گوہر علی سمیت دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس میں آئین کی مکمل بحالی، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت کی مکمل بحالی، عدلیہ کی آزادی اور سول بالادستی کے بنیادی اصولوں پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ مشاورتی اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام شامل نہیں تھی، جس نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو لے کر الگ سے اپنی احتجاجی تحریک کا شیڈول دیا ہے۔ تاہم شنید ہے کہ تحریک انصاف، جمعیت علما اسلام کو بھی اپنے الائنس میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر اس سلسلے میں جلد رابطہ کیا جائے گا۔ دیکھنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی اس اتحاد کا حصہ بنتی ہے یا نہیں؟