درستی کی مجاز اتھارٹی بورڈ میں موجود نہیں تھی، طلبہ نے احتجاج کیا، فائل فوٹو
 درستی کی مجاز اتھارٹی بورڈ میں موجود نہیں تھی، طلبہ نے احتجاج کیا، فائل فوٹو

میٹرک کے ہزاروں طلبہ کا سال ضائع ہونے کا خطرہ

سید نبیل اختر:

ثانوی تعلیمی بورڈ انتظامیہ کی غفلت سے ہزاروں طلبا کے امتحانی فارم جمع ہونے سے رہ گئے۔ آخری روز فارم جمع کراتے وقت انکشاف ہوا کہ میٹرک بورڈ کے پورٹل میں امتحانی فارم پر یکم جنوری 1900ء کی تاریخ درج تھی۔ یوں بینک عملے نے ہزاروں فارم کی فیس لینے سے انکار کردیا، جب کہ غلطی درست کرنے کی مجاز اتھارٹی، بورڈ کے چیئرمین سید شرف علی شاہ اور سیکریٹری بورڈ ڈاکٹر نوید گجر، بورڈ آفس میں موجود نہیں تھے۔ پریشان طلبہ ڈپٹی سیکریٹری کے دفتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوگئے۔

ادھر کراچی میں 517 امتحانی مراکز قائم کردیئے گئے۔ ایجنٹوں نے بورڈ میں ڈیرے ڈال دیئے۔ شعبہ امتحانات کا کرپٹ عملہ من پسند اسکولوں کو امتحانی مرکز بنانے کیلئے لاکھوں روپے بٹورنے لگا۔

ثانوی تعلیمی بورڈکراچی کے چیئرمین سید شرف علی شاہ نے سالانہ امتحانی فارم 2024ء جمع کرانے کی آخری تاریخ 24 اپریل کردی تھی اور ہدایت کی کہ جن اسکولوں اور طلبا و طالبات نے اب تک سالانہ امتحانی فارم، انرولمنٹ فارم اور رجسٹریشن فارم جمع نہیں کرائے وہ لازمی امتحانی فارم جمع کرادیں۔ اس کے بعد تاریخ میں کسی بھی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی۔

گزشتہ روز بورڈ کے پورٹل سے امتحانی فارم بینک میں جمع کراتے وقت بینک کے عملے نے یہ کہہ کر فارم وصول کرنے سے انکار کردیا کہ فارم پر تاریخ یکم جنوری 1900ء لکھی ہوئی ہے۔ سیکڑوں طلبہ اسکولز کے پرنسپلز اور دیگر اساتذہ بینک اور بورڈ آفس کے دھکے کھاتے نظر آئے۔ لیکن ایک فارم بھی جمع نہ ہوسکا۔ ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کے پورٹل سے رجسٹریشن اور امتحانی فارم جمع کرائے جاتے ہیں اور یہ پورٹل امتحانی فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ تک بند نہیں کیا جاتا۔

اس پورٹل کے ذریعے فارم جمع کرانے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ پورٹل 17 اپریل سے بند ہے۔ اسکولوں کی انجمنوں نے شور شرابا کیا تو بورڈ کی انتظامیہ نے کہا کہ 22 اپریل کو ایک دن کیلئے پورٹل کھولا جائے گا اور امتحانی فارم جاری ہوسکیں گے۔ بعد ازاں جو فارم جاری ہوئے اس میں تاریخ غلط درج تھی جس پر بینک نے فیس وصول کرنے سے انکار کردیا۔

سیکڑوں طلبہ اور اساتذہ نے شعبہ اکاؤنٹس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ اختیار چیئرمین کا ہے۔ انہی کے تحریری احکامات پر تاریخ درست کی جاسکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ چیئرمین وزیر تعلیم کو بریفنگ دینے گئے ہیں اور مغرب تک واپس نہیں آئے تھے۔ متاثرہ طلبہ نے بورڈ انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔

دوسری جانب بدھ کو وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ اور وزیر یونیورسٹیز اینڈ بورڈز محمد علی ملکانی کی صدارت میں سندھ بھر کے ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں چیئرمین بورڈز نے امتحانات کے حوالے سے بریفنگ دی۔

مذکورہ بریفنگ میں میٹرک بورڈ کے امتحانی مرکز کی تفصیلات غلط بیان کی گئیں۔ وزیر تعلیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سندھ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ امتحانات مئی میں ہوںگے۔ امتحانی مراکز کے اطراف دفعہ 144 کے نفاذ اور امتحانی مراکز میں موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نور احمد سموں، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن زاہد علی عباسی، سیکریٹری کالج ایجوکیشن صدف انیس شیخ، بورڈز کے چیئرمین، سیکریٹریز اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ دوران اجلاس آگاہی دی گئی کہ میٹرک کے امتحانات مئی کے پہلے ہفتہ جبکہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات مئی کے آخر میں لینے کے حوالے سے تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔

کراچی میں میٹرک کے 250 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، جس میں 350,198 امیدوار امتحان دیں گے۔ بورڈ ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں قائم کردہ امتحانی مراکز کی تعداد اب تک 517 ہے۔ چیئرمین بورڈ نے وزیر تعلیم کو گمراہ کیا اور امتحانی مراکز کی تعداد غلط بتائی۔

وزیر تعلیم کے ترجمان نے کہا کہ کراچی میٹرک کے امتحان کے لیے سرکاری اسکولز کے 73,724 جبکہ نجی اسکولز کے 276,474 امیدوار امتحان دیں گے۔ انٹرمیڈیٹ امتحان کے لئے کراچی میں 290,220 امیدوار حصہ لیں گے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ امتحانات کی نگرانی کے لیے ویجیلنس ٹیمیں ہر صورت میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ اگر وقت کے پہلے پیپر آئوٹ کی شکایت موصول ہوئی تو متعلقہ بورڈ کے چیئرمین کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اس موقع پر وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا نقل کو روکنے کے حوالے سے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ بورڈ کے نتائج کے حوالے سے تھرڈ پارٹی اسسمینٹ بھی کی جائے گی۔نتائج کی تھرڈ پارٹی اسسمینٹ سے بورڈ کے اندر ہونے والی مارکس کے سلسلے میں آنے والی شکایات کو جانچنے میں بھی مدد ملے گی۔

ادھر بورڈ آفس میں امتحانی مراکز کے قیام کیلئے ایجنٹوں نے ڈیرے ڈال لیئے ہیں اور شعبہ امتحانات کے کرپٹ افسران کے ساتھ مل کر من پسند اسکولوں کو امتحانی مراکز بنارہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان سینٹرز میں گلستان جوہر کا میٹروپولیٹن اسکول سر فہرست ہے جہاں ایک ہزار سے زائد طلبا کا امتحانی مرکز قائم کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ اسکول ایجنٹ نعمان کا ہے جس کے شعبہ امتحانات کے سابق ناظم امتحانات سے بہت گہرے مراسم ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ میٹرولیٹن اسکول کو امتحانی مرکز نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو سابق ناظم امتحانات چیئرمین کے پاس پہنچ گئے اور نہ صرف صبح کا سینٹر بنوانے کے احکامات صادر کرائے بلکہ سائنس و جنرل گروپ کے دوپہر کے سینٹر بھی بنوادیے۔

مذکورہ سینٹر میں جنرل گروپ کے سیکڑوں طلبا کو کاپیاں باہر لے جانے اور انہیں بھر کر دوبارہ ایجنٹ نعمان تک پہنچانے کی اجازت ہوتی ہے جس پر فی پرچہ 5 سے 7 ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ میٹروپولیٹن کے علاوہ ملیر کے نیشنل اسکول کے حوالے سے بھی موجودہ ناظم امتحانات پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ اسے بھی امتحانی مرکز بنایا جائے۔ تاہم گزشتہ برس فائرنگ کے واقعہ کو بنیاد بناکر نیشنل اسکول کو امتحانی مرکز اب تک ڈکلیئر نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اورنگی میں الرحمت اسکول ، ایم جی اسکول ، گڈاپ میں اسٹڈی برج ، برائٹ فیوچر سمیت 35 اسکولوں کو امتحانی مراکز بنایا جارہا ہے جہاں کاپیاں باہر جانے اور طالبعلم کی جگہ کسی اور بیٹھ کر امتحان دینے کی اجازت ہوگی۔ بورڈ آفس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’کمائی‘‘ والے امتحانی مراکز بلدیہ ، گڈاپ ، لیاری ،لانڈھی اور اورنگی میں بنائے جارہے ہیں۔