نواز طاہر:
بھارت کے مہلک مسالے پاکستان پہنچنے لگے ہیں اور مختلف ذرائع کے پہنچنے والے ان انتہائی مضر صحت مسالوں کی قیمت میں مجموعی طور پر پچیس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے ان مہلک مسالوں پر سب سے پہلے یوری یونین نے پابندی لگائی تھی اور پھر دیگر ممالک نے بھی پابندی لگادی۔ ان مسالوں کی کھپت کم ہوئی تو بھارت نے وہی مسالے پیکٹوں کے بجائے کھلے فروخت کرنا شروع کر دیئے اور اس کی بڑی مقدار پاکستان میں بھی پہنچ رہی ہے۔
پنجاب میں مسالے بیچنے والوں نے تصدیق کی ہے کہ مختلف ذرائع سے بھارت کا کھلا مسالا پاکستان آرہا ہے اور مقامی کھلے مسالوں میں شامل کرکے بیچا جارہا ہے۔ قبل ازیں پیکٹوں میں بند یہ مسالے درآمدی اشیا کے استعمال کا رحجان رکھنے والے پوش علاقوں میں مخصوص بڑے اسٹوروں پر فروخت ہو رہے تھے۔
مارکیٹ میں مسالے کی قیمت کے بارے میں مریانہ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے صدر حافظ محمد عارف نے بتایا کہ مارکیٹ میں مسالوں کی قیمتیں کچھ عرصے سے بتدریج کم ہوئی ہیں اور یہ شرح تقریباً پچیس فیصد کے قریب ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں مسالے مختلف ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ جن میں بھارت کے ساتھ ایران بھی شامل ہے۔ لیکن چونکہ بھارت سے تجارت پر اب بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس لئے بھارتی مسالے دیگر ذرائع سے آتے ہیں۔
سگریٹ سمیت غیر ملکی اشیا اسمگل کرنے والے لاہور کی ایسی ہی مارکیٹ کے ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ ممنوعہ اشیا کی پاکستان میں آمد سرکاری طور پر تو رُک جاتی ہے۔ لیکن غیر سرکاری طور پر جاری رہتی ہے۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ سختی کے دور میں کھیپ (اسمگل شدہ سامان) کی پہنچ (رسائی) کا ریٹ بڑھ جاتا ہے‘‘۔
ذرائع کے مطابق سگریٹ کے بعد اس وقت سب سے زیادہ بھارتی مسالے آرہے ہیں۔ تاہم ان ذرائع نے یہ تصدیق بھی کی کہ یہ مسالے پیکٹوں میں نہیں آتے۔ بلکہ کھلے ہی آتے اور بکتے ہیں۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی نے کھلے مسالوں فروخت پر پابندی کا اعلان کیا تھا اور پیکٹوں میں بند معیاری مسالے بیچنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اس کے بعد اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور بھارتی مسالے ابھی بھی بوریوں میں کھلے عام اور سادہ لفافوں میں بک رہے ہیں۔
دوسری جانب کراچی میں مسالوں کی تجارت کرنے والے ایک ادارے کے سی ای او ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ ’’بھارت 65 فیصد مسالہ ایکسپورٹ کرتا ہے تو پاکستان کی ایکسپورٹ بھی 35 فیصد ہے۔ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بھارت پر لگنے والی پابندی سے فائدہ اٹھا کر پاکستانی مسالوں کی ایکسپورٹ بڑھانے کا جائزہ لے رہے ہیں‘‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا ’’بھارت کا مسالا پاکستان میں آکر سستا بکنا بظاہر آسان نہیں لگتا۔ کیونکہ بھارتی اور پاکستانی کرنسی میں فرق ہے ۔ دوئم یہ کہ اگر کوئی چیز اسمگل ہوکر آتی ہے تو تکنیکی طور پر اس کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ کھلی تجارت نہ ہونے سے تاجر دبئی کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ جس سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ اور برازیل سے درآمد ہونے والے مسالوں کی کوالٹی بھارت سے کہیں بہتر ہے‘‘۔
دوسری جانب اسمگل شدہ اشیا کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنے والا بھارتی مسالا وہی ہوسکتا ہے جو بھارت اپنے ملک میں نہیں بیچ رہا۔ چونکہ پابندی کی وجہ سے وہ بیرون ممالک اپنا مسالا بیچ نہیں سکتا۔ لہذا کم ریٹ پر پاکستان بھیجا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جبکہ ایران اور سعودیہ سمیت مغربی و یورپی ممالک میں تو یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
ان کے مطابق لاہور سے دیگر چھوٹے شہروں میں بھارتی مسالوں کی سپلائی سب سے زیادہ ہے اور جنوبی پنجاب اس ی سب سے بڑی مارکیٹ ہے‘‘۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی ایم پی اے کنول نعمان نے صوبائی حکومت سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ کیسے بھارتی مسالے غیر قانونی طور پر فروخت ہو رہے ہیں۔ بھارت سے غیر قانونی طور پر آکر فروخت کیے جانے والے مسالے پر محکمہ صنعت و تجارت پنجاب کے سیکریٹری سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ جو بے سود رہییں۔