پاکستان میں نوجوانوں کاکھانوں میں ٹرانس فیٹس کو ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد( پ ر) سال 2024 کا وسط ہے اور اب تک پاکستان کو ٹرانس فیٹی ایسڈز کو ریگولیٹ کرنے میں مسائل کا سامنا ہے اور وہ اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کر سکا ۔ یہ دھچکا صحت عامہ کے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس کوششوں کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرتا ہے ۔

سابقہ وعدوں اور اقدامات کے باوجود، پاکستان ٹرانس فیٹی ایسڈز سے متعلق ضوابط کو نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے، جو شہریوں کی صحت اور بہبود کے لیے اہم خطرات کا باعث ہیں۔ اور پہلے ہی بہت ہونے کی وجہ سے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں فوری اقدامات اتھائیں جائیں ۔

پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائی سی اے) کی سربراہی میں ٹرانسفارم پاکستان مہم، نے سنٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشیٹوز (سی پی ڈی آئی) اور ہارٹ فائل جیسی صحت عامہ کی سرکردہ تنظیموں کے ساتھ شراکت میں آئی ٹی ایف اے کے بارے میں آگاہی سے متعلق مکالمے اور کوششیں تیز کر دیں ہیں ۔ ان کوششوں کے نتیجے میں آئی ٹی ایف اے کے ضوابط کے نفاذ کے لیے نوجوانوں کی کوششوں میں نمایاں اضافہ نظر آیا ہے ۔

ہما جہانگیر، پروگرام امپلیمنٹیشن لیڈ نے کہا کہ ہماری مہم میں شعور بیدار کرنا ایک اہم سنگ میل ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اجتماعی طور پر مہم کے حتمی مقصد کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں، پاکستان بھر میں تمام کھانے پینے کی اشیاء میں آئی ٹی ایف اے کا ضابطہ ڈبلیو ۔ ایچ ۔ او کے تجویز کردہ معیارات کے مطابق 2 فیصد سے کم ہو ۔

اس فوری کال کے جواب میں، ملک بھر میں نوجوانوں کے گروپوں نے آئی ٹی ایف اے کے ضابطے کو بروئے کار لانے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ نوجوانوں کے یہ گروپ اپنی آواز بلند کرنے کے لیے فعال اقدامات کر رہے ہیں اور پالیسی سازوں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ٹرانسفارم پاکستان مہم کے تحت، وہ صوبائی فوڈ اتھارٹیز کے حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور خط لکھنے کی مہم شروع کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی، وزیراعظم کے دفتر، اور وفاقی اور صوبائی وزرائے صحت سے بھی درخواست کر رہے ہیں کہ وہ آئی ٹی ایف اے ریگولیشن کے عمل کو تیز کریں۔

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کی ایک نوجوان رہنما حائقہ نور نے بتایا، "نوجوانوں کو کھانے میں مختلف قسم کے زہریلے مادوں کا سامنا ہوتا ہے جو ہم روزانہ کھاتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر کام کرنے کے لیے اجتماعی طور پر اپنی آواز بلند کریں۔

خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے ممتاز اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ طالب علموں کے لیے ٹرانس فیٹ سے پاک تعلیمی ماحول قائم کیا جا سکے۔ ایک ممتاز نوجوان رہنما، طیبہ خالد نے متعدد اداروں سے تعاون حاصل کرنے اور نوجوان ذہنوں کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی سے متعلق آگہی پیدا کرنے اور کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ‘یہ بہت اہم ہے کہ متعدد ادارے اس مہم کی حمایت کریں اور ہمارے نوجوانوں کے لیے محفوظ ماحول کو فروغ دینے کا عہد کریں۔ مقامی حکومتی اداروں سے توجہ حاصل کرنے کی ہماری کوششوں میں، ہم ان سرکردہ اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ قریبی تعاون کر رہے ہیں۔

چونکہ پاکستان ٹرانس فیٹی ایسڈز کے مسلسل چیلنج سے نبرد آزما ہے، اب وقت آگیا ہے کہ حکومت فیصلہ کن اقدامات کرے۔ تمام پاکستانیوں کی صحت اور بہبود کو ترجیح دینے والے ضابطوں کی انتھک وکالت کرتے ہوئے، نوجوان اس تحریک میں سب سے آگے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔