نواز طاہر:
پنجاب میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے سہولت کاروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں، جس سے ملک میں دہشت گردی کرنے والا بڑا نیٹ ورک پکڑے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ملزم فیضان بٹ کی گرفتاری کے بعد پولیس اہلکاروں میں خوف کم ہوا ہے۔ تاہم دہشت گردی کے امکانات کم ہونے کے بارے میں صورتحال واضح نہیں ہے اور پولیس کیلئے حفاظتی ایس او پیز تاحال برقرار رکھے گئے۔
واضح رہے کہ لاہور میں پولیس کے ایک سب انسپکٹر سمیت تین اہلکاروں کو یکے بعد دیگرے ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا تھا جس سے پولیس ڈپارٹمنٹ میں خوف پیدا ہوگیا تھا اور انہیں ناکوں سمیت مختلف اوقات میں چوکس رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس ضمن میں خصوصی ایس او پیز بھی بنائے گئے تھے۔ ایس ایچ اوز کی سطح پر تو افسران کو سیکورٹی حاصل تھی، لیکن ماتحت عملے کو یہ سہولت دستیاب نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے ملزم نے نہتے اہلکاروں ہی کو نشانہ بنایا اور مزید کارروائی سے پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسے لاہور کے پوش علاقے سے دبوچ لیا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ صوبے میں مجموعی طور پر پندرہ پولیس افسر اور اہلکاروں کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق لاہور سمیت صوبہ بھر میں جن پندرہ پولیس افسران اور اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا، ان میں سے لاہور میں سب انسپکٹرسمیت تین اہلکار شہید ہوئے، جبکہ تیرہ زخمی ہوئے جن میں سے زیادہ تر تاحال اسپتال میں زیر علاج ہیں اور پولیس ڈپارٹمنٹ میں خوف و ہراس کی فضا بھی برقرار ہے۔ تاہم اس خوف کی لہر میں ملزم فیضان بٹ اور کچھ سہولت کاروں کی گرفتاری سے کمی واقع ہوئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے دوران سیکورٹی بڑھانے اور حفاظتی ایس او پیز کے باعث مزید ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوسکی۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ملزم فیضان بٹ کو حراست میں لیے جانے کے بعد ابھی ابتدائی تفتیش جاری تھی تو اس کی گرفتاری قبل از وقت لیک کردی گئی جس سے اس نیٹ ورک تک پہنچنے میں مشکل ہوسکتی تھی۔ تاہم جدید ذرائع اور برق رفتار کارروائی نے دہشت گردوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور ملزم کے سہولت کاروں کے فرار ہونے سے پہلے ہی ان پر ہاتھ ڈال دیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ ملزم فیضان کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کا کارندہ ہے اور اسے ہمسایہ ملک سے آپریٹ کیا جارہا تھا۔ اسے پولیس افسروں کو ٹارگٹ کرکے نشانہ بنانے کا ہدف دیا گیا تھا۔ لیکن سیکورٹی سخت ہونے کی وجہ سے وہ کسی بڑے پولیس افسر کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ چناںچہ اس نے نہتے اہلکاروں کو ہدف بنا لیا اور سب انسپکٹر سمیت تین کو شہید کردیا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ دہشت گردی کیلئے پولیس کو ٹارگٹ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی ملک بدری کے لئے پولیس سمیت سب سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کردار ادا کیا۔ تاہم پولیس کی طرف سے ان اطلاعات کی تاحال تصدیق نہیں کی جارہی۔
البتہ یہ تصدیق کردی گئی ہے کہ بادامی باغ لاہور سے تعلق رکھنے والے ملزم فیضان بٹ کو ملزم کے بیان کے مطابق مبینہ دہشت گردی، عدیل عرف سیف اللہ خراسانی اور زین عرف اسد اللہ خراسانی آپریٹ کرتے تھے جو چند روز پہلے وفاقی وزیر ریاض حسین پیر زادہ کے قتل کے منصوبے پر عملدرآمد سے پہلے ہی حاصل پور سے گرفتار کیے گئے تھے۔ اور وہ خود کو چھڑوانے کیلئے اپنے ساتھیوں کی ہی فائرنگ سے بہاولپور کے علاقے میں مارے گئے تھے۔
جبکہ خود ملزم فیضان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ افغانستان میں رہا اور ٹریننگ بھی حاصل کی۔ ملزم کے مطابق اس نے دو اعلیٰ پولیس افسروں کو ٹارگٹ بنا رکھا تھا، جبکہ مجموعی طور پر اسے چودہ افسروں کو قتل کرنا تھا اور ان کی بعد میں ویڈیوز بھی وائرل کرنا تھیں۔ ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی کے ادارے نے ملزم سے حاصل معلومات کی روشنی میں اس کے سہولت کاروں سمیت مزید کچھ افراد کو بھی حراست میں لیا اور ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ حراست میں لیے جانے والوں کے نام صیغہ راز میں رکھے جارہے ہیں۔