فوٹو سوشل میڈیا
فوٹو سوشل میڈیا

جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتا وہ گھر بیٹھ جائے، چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتا وہ گھر بیٹھ جائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان بنچ کا حصہ ہیں۔

صدرسپریم کورٹ بار نے کہاکہ ہائیکورٹ بھی ماضی میں مداخلت پر خاموش رہی تووہ بھی شریک جرم ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کررہی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے صدر سپریم کورٹ بار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ڈرکس بات کا ہے عوام کے سامنے سچ بولیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا لکھا ہوا اضافی نوٹ پڑھا کہ وفاقی حکومت ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہے، وفاقی حکومت الزامات کا جواب دے، وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے، وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں۔

پاکستان بار کونسل کے وکیل نے دلائل دیے کہ چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات چاہتے ہیں، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، 76سال سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، ہم خوفزدہ کیوں ہیں، سچ کیوں نہیں بولتے، ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے، اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہ بات کہی ہے، حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے، تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کیساتھ کھلواڑ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا، 2018 اور 2019 میں ہائیکورٹ کے آزاد ججز کیلیے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عوام کو حقیقت بتانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ہمیں ملی بھگت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جوابا کہا اگر ملی بھگت ہے تو پھر بینچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔

سپریم کورٹ بارنے تجاویز جمع کرا دیں

دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں۔

تجویز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کی ذمہ داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔

تجویز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا، وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیراعظم سے بھی بات کرنی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے، اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لئے دے دی گئی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے کل تک وقت دے دیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟ جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ ہم 45 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔

اس موقع پر اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے۔

اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے، حامد خان نے دلائل کے لئے ایک گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکرٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ کے درمیان روسٹم پر اختلاف ہوگئے، سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کیلئے آدھا گھنٹہ مانگ لیا۔

شہباز کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ پتا نہیں کیوں یہ اپنی تشہیر چاہتے ہیں، شہباز کھوسہ نے جواب دیا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ دستخط شدہ آرڈر کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کریں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے گزشتہ عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ پڑھنا شروع کر دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سابق صدر عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ ہم کسی پرائیویٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلا بتائیں دلائل کیلیے کتنا وقت درکار ہوگا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔