تحریر :- امجد بٹ ۔ مری
سوشلزم عہدِ حاضر کا وہ معاشی اور سیاسی نظریہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس کی وجہ سے دولت کی پیداواراور اس کی مناسب تقسیم میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے کیونکہ دولت پیدا کرنے کے بنیادی ذرائع زمین، جنگلات، بینک، معدنیات بڑے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں وغیرہ چند لوگوں کی ذاتی ملکیت ہیں اور وہ ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی خاطر کام میں لاتے ہیں، بجائے اس کے کہ معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر سوچا جائے، حالانکہ دولت پیدا کرنے کا سبب محنت کش عوام ہی ہیں جب کہ ان کو محنت کا صلہ تک نہیں ملتا۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ دولت پیدا کرنے کے تمام بنیادی ذرائع کو قوم کی مشترکہ ملکیت بنایا جائے تا کہ دولت کی پیداوار اور تقسیم قومی مفاد کے تحت ہو جس کا براہِ راست فائدہ انتہائی نچلی سطح(Grass Root Level)تک پہنچ سکے اور جس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیر دار اور صنعت کا رطبقہ ہے جس کے ذاتی مفاد پر اس سے براہ راست زد پڑتی ہے۔ یہ کام سماجی انقلاب کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ سوشلزم کے نظریات کو کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز نے اپنی تصنیفات میں پیش کیا چنانچہ انہی نظریات کے مطابق چین، روس اور مشرقی یورپ میں سوشلزم کا نظام قائم ہوا۔ سوشلسٹ نظام معاشرہ کی سب سے ترقی یافتہ شکل کمیونزم ہے، جس میں دولت کی پیداوار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ معاشرہ لوگوں کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ اس معاشی نظام کے ثمرات کے نتیجے میں ریاست رعایا پر حکومت کرنے کی بجائے پیداوار کی تنظیم کرتی ہے۔ اگرچہ کمیونزم کا سراغ افلاطون کی ”ری پبلک“ اور ”انجیل مقدس“ میں بھی ملتا ہے۔ لیکن اس معاشی نظرئیے کا اصل محرک اور بانی کارل مارکس ہے۔ کمیونزم کے فلسفے کی بہترین تشریح مارکس کی تصنیف ”سرمایہ“ کمیونسٹ منشور“ اور ”لینن کی شہرہ آفاق تحریر“ انقلاب کے تین بنیادی سرچشمے“ میں ملتی ہے۔ آئیے اب تفصیل سے اس کا تحقیقی تجزیہ کریں۔سوشلزم یا اشتراکیت (معاشی مساوات) کے بارے میں ہمارے ہاں طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض باتیں جاگیر دار، سرمایہ دار اور ان کے زرِ خرید قلمکاروں کی طرف سے سراسر غلط اور جھوٹ کی صورت میں پھیلائی گئی ہیں اور لوگ ان کے وسیع اور مؤثر پروپیگنڈے کا شکا ر ہیں اور بعض باتیں سوشلزم کی واضع اور آسان زبان میں تشریح نہ ہونے کے باعث شکوک و شبہات کا ذریعہ بن گئی ہیں۔
سوشلزم کی مخالفت میں جہاں سرمایہ دار طبقہ اور اس کے ترجمان اخبارات، رسائل اور نام نہاد دانشور پیش پیش ہیں اور انہوں نے عوام کو گمراہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ وہاں سوشلزم کے نادان دوست بھی قصور وار ہیں۔ یہ سوشلزم کی بات تو کرتے ہیں لیکن اسلام اور سوشلزم سے کما حقہ واقفیت نہ ہونے کے باعث یا کم از کم اسلام سے ناواقف ہونے کے سبب سوشلزم کی ایک ایسی مکروہ اور ناپسندیدہ تصویر پیش کرتے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سوشلزم سراسر کفر، دہریت او ر الحاد ہے۔
سوشلزم کے ان نادان دوستوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مذہب کو روایات کا مجموعہ اور قدامت پرستی کی ایک صورت خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف سوشلزم کے حامیوں ہی میں نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقے میں بھی بھاری اکثریت میں موجود ہیں۔ مذہب سے لاتعلقی اور بے رغبتی کا رجحان جدید مغربی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے اور اس کا شکار سرمایہ دار طبقے کے افراد سوشلزم کے نام لینے والوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ البتہ یہ لوگ مذہب کو سوشلزم کے خلاف حربے کے طور پر استعمال کرتے وقت اس کا نام لیتے ہیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ خود مذہب کے حامی اور طرف دار ہیں۔ مذہب سے ان کا کتنا لگاؤ ہے وہ اسی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لوگ مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ اور مدرسہ میں دین کی تعلیم کے لیے عطیات تو دے دیتے ہیں لیکن خود نماز پڑھنا اور اپنے بچوں کو مدرسے میں دینی تعلیم دلانا ضروری خیال نہیں کرتے۔
سوشلزم کے حامی بعض ایسے نادان دوست ہیں جو پیشہ ور مولویوں،پیروں اور مذہب کے نام پر عوام کا استحصال کرنے والوں کے کردار سے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ (معاذ اللہ) گویا مذہب کی تعلیم کا اثر ہے ۔ علاوہ ازیں سرمایہ دار طبقے کے ان چندوں سے متاثر ہو کر جب مذہبی پیشوا(مولوی اور ذاکرین) سوشلزم کی مخالفت کرتے ہیں تو تمام لوگ اس مخالفت کو اسلام کی طرف سے مخالفت خیال کرنے لگ جاتے ہیں لیکن مخلص، نیک نیت اور دین کا درد رکھنے والے علماء بھی بسااوقات سوشلزم کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کی وجہ وہ سرمایہ دارانہ پروپیگنڈہ ہے جو گزشتہ ایک سوسال سے کیا جارہا ہے۔
ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سوشلزم کی واضح تشریح، عام فہم اور سادہ زبان میں کر دی جائے تاکہ کم از کم وہ لوگ جو سرمایہ داروں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی مخالفت کرتے ہیں ان پر بات واضح ہو جائے اور اصل حقیقت ان کے سامنے آ جائے۔ نیز سوشلزم کے وہ نادان دوست جو سوشلزم کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن اس حقیقت سے کما حقہ واقف نہیں یا سوشلزم کی حمایت میں (معاذ اللّٰہ) مذہب سے منحرف ہو جاتے ہیں ان کے خیالات کی بھی اصلاح ہو جائے۔
سوشلزم کے بارے میں غلط فہمیوں کی ایک بڑی وجہ سوشلزم کی تاریخ اور اس کے پس منظر کے بارے میں معلومات کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جارہا ہے کہ سوشلزم کارل مارکس کی ایجاد ہے اور کارل مارکس نسلی اعتبار سے یہودی تھا، اس لیے یہ نظریہ یہودی سازش اور اسلام کے خلاف یہودی تدابیر کے سلسلہ کی کوئی چیز ہے۔ اس کی ذاتی پسند اور ناپسند سب کے مجموعہ کا نام سوشلزم ہے۔ گویا خدانخواستہ مارکس نہ ہوا، نبی اور رسول ہوا جس کی ہر بات دین اور ہر پسند مذہب کا درجہ رکھتی ہے۔
سوشلزم صرف ایک معاشی نظام ہے جس سے مسلمان رہتے ہوئے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس عالمگیر معاشی تحریک نے معاشرے کی سائنس کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ سوشلزم کے حقیقی خدوخال واضح ہوجائیں اور اسلام اور سوشلزم کا تعلق سامنے آجائے تو نہ صرف مسلمان نوجوانوں کو دین کی طرف لایا جاسکتا ہے بلکہ ہندو عیسائی اور دوسرے مذہب کے لوگ جو کثرت سے مذاہب چھوڑ کر دہریت کی طرف مائل ہو رہے ہیں، انہیں اسلام کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ آج دہریت(Atheism)کو دنیا کا ابھرتا ہوا مذہب کہا جاتا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ان لوگوں کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔
آج سائنس کا دور ہے سائنسی ترقی اور مقبولیت کو کسی طور روکا نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کی اقوام سائنس سے اپنے مستقبل کو وابستہ خیال کر رہی ہیں یورپ جو آج سائنس کا مرکز ہے وہاں سالہا سال تک مذہبی رہنماؤں اور پادریوں نے سائنس کی مخالفت کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ مذہب سے تقریباََ قطع تعلق کر کے سائنس کی گود میں چلا گیا،۔ اگر سوشلزم جیسے معاشی نظام کی مخالفت مذہب کے نام پر ہوتی رہی اور آنے والی نسلیں بھی اس کی افادیت سے باخبر ہو گئیں تو کہیں ایسانہ ہو کہ سوشلزم کو اپنانے کے دوران وہ بھی مذہب سے برگشتہ ہو جائیں۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کو اسلام سے وابستہ رکھیں او ر غیر اقوام کو اسلام کی طرف راغب اور آمادہ کریں تو ضروری ہے کہ ہم سوشلزم کے بارے میں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں اور اسلام کا معاشی نظام جس کی ایک ادھوری سی صورت سوشلزم میں بھی نظر آرہی ہے، اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔
سوشلزم خالص معاشی مسئلہ ہے، اس کا تعلق علمِ معاشیات کے بے شمار مسائل میں سے ایک خاص مسئلہ سے ہے اور وہ ہے ”تقسیم دولت“ کا مسئلہ۔ جب ہم سوشلزم کے فلسفہ کے فقط معاشی پہلوپر بحث کرتے ہیں اور دنیا کے دوسرے غیر اسلامی نظام ہائے معاشی کے مقابلہ میں اس کو پیش نظر لاتے ہیں تو اقتصادی نظام کے بہت سے امور میں اسلام اور سوشلزم بہت قریب نظر آتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دونوں ہم آہنگ و ہم خیال دکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے طریق کار میں اختلاف ہے لیکن اسلام اور سوشلزم کے مابین جن امور میں اتفاق ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
1۔ دولت جمع کرنے کا مذموم طریق کار اور مخصوص طبقہ میں دولت کی تحدید کو دونوں باطل خیال کرتے ہیں اور اقتصادی زندگی کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔
2۔ دونوں ضروری سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کی اساس و بنیاد عام مفاد پر قائم ہو اور ہر شخص کو حصہ ملے، یہاں تک کہ کوئی بھی محروم المعیشیت نہ ہو۔
3۔ دونوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اقتصادی نظام کے دائرہ میں تمام انسانی دنیا جغرافیائی طبقاتی اور نسلی و خاندانی امتیازات سے بالا تر ہو کر یکساں اور برابر حیثیت میں شریک ہو۔
4۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جماعتی حقوق انفرادی حقوق پر مقدم ہیں۔
5۔ دونوں کے ہاں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ معاشی دست برد کے ذریعے حاکم و محکوم و غلام و آقا کا سسٹم مٹا دیا جائے اور آئندہ کبھی قائم نہ ہو سکے۔
6۔ اسلام اور سوشلزم جائز ذاتی ملکیت کا احترام کرتے ہیں اور اس کو ختم کرنے کے حق میں نہیں البتہ سوشلزم پیداوار اور تقسیم کے بنیادی ذرائع کو اجتماعی ملکیت اور جمہوری نظام کے تحت لا کر ناجائز مفادات کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سوشلزم ذاتی جائیداد کو ختم کرنے کے حق میں نہیں بلکہ ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
قرآن مجید اسلام کی بنیادی اور اساسی کتاب ہے۔ حدیث شریف، قرآن مجید کی تفسیر و تشریح آئمہ حضرات نے جو فقہ مرتب کی ہے وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیق و اجتہاد کے نتائج ہیں۔ مسلمانوں میں آئمہ کرام کے اختلاف کی حثییت بنیادی اصولی نہیں، یہ صرف اورصرف خوب اور خوب تر کا اختلاف ہے اور باعثِ رحمت ہے۔ باعثِ انتشار نہیں بلکہ اجتہاد و فکر و نظر کی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ اس اختلاف سے اسلام کے مختلف گوشے اور پہلو زیادہ سے زیادہ روشن اور واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو شخص قرآن مجید کو اللّٰہ تعالی کی آخری کتاب تسلیم کرتا ہے اور رسول ﷺ کو آخری نبی مان کر آپ کی حدیث کو قرآن کی شرح و تفسیر مانتا ہے وہ مسلمان ہے۔ جب اسلام ہمارا دین ہے تو عوام کو اسلام کی تعلیم دینا، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا اور اس کے بنائے ہوئے عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے اصولوں کے عین مطابق ملک کا نظم و نسق چلانا اور ایسا نظام رائج کرنا جو معاشرے کو غلام، نوکر اور ملازم نہیں بلکہ رضا کار اور مجاہد کارکن مہیا کرے ، ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ اگر اسلام کاوسیع اور جامع تصور سامنے ہوتو جمہوریت یا سوشلزم وغیرہ اصطلاحات کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ لیکن خرابی یہ ہے کہ ہمارے اسلام کی (معاذ اللّٰہ) صورت مسخ کرنے کی دانستہ سازشیں کی جارہی ہیں۔ اسلام کے نام پرلوگوں کو غلام، پسماندہ اور جاہل رکھا جارہا ہے۔ اسلام کے نام پر امریکی سامراج کے کارندے عوام کا سیاسی اور معاشی استحصال کر رہے ہیں۔ لوگ سیاسی و معاشی حقوق سے اس قدر محروم کر دئیے گئے ہیں کہ انگریزوں کا زمانہ بھلا اور اچھا نظر آرہا ہے۔ گلی کوچوں میں لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ انگریزوں کے وقت میں انصاف تھا، آزادی تھی اور فرد کی عزت و جان و مال محفوظ تھے اور معاشی استحصال کی حد یہ ہے کہ لوگ بنیادی ضرورتوں کے لیے سمگلنگ، چور بازاری، رشوت اور دوسرے ناجائز ذرائع سے کام لینے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ پورا ملک غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے چونکہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ جب اسلام یا ماڈرن اسلام کا نام لیا جائے تو یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ جمہوریت اور سوشلزم بھی اسلام کا حصہ ہیں۔ یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح آج کا ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے۔ ختم نبوت کا نظریہ اسلام کے لیے کوئی نیانظریہ یاخارجی نظریہ نہیں بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ایک اہم جزو اور حصہ ہے لیکن حالات اس قسم کے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمان کہلانے کے باوجود ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہو گیا کہ اسلام کے اقرار کے ساتھ ختم نبوت کا اقرار کیا جائے۔ بالکل اسی طرح اسلام میں جمہوریت اور سوشلزم کی تمام خوبیاں موجود ہیں اور اس بات کی بظاہر ضرورت نہیں کہ اسلام کے ساتھ جمہوریت اور سوشلزم کا نام بھی لیا جائے لیکن حالات اس قسم کے ہیں۔ اسلام سے جمہوریت اور سوشلزم(یعنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر دولت کی منصفانہ تقسیم) کے عناصر نکالنے کی سازش کی جا چکی ہے۔
اس لیے اسلامی جمہوریت اور اسلامی سوشلزم کے الفاظ اور اصطلاحیں استوار کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔
ماخوذ:
1۔ اسلامی انسائیکلو پیڈیا۔۔۔۔۔ اسلامی کتب خانہ۔لاہور
2۔اردو انسائیکلو پیڈیا۔۔۔۔ فیروز سنز
3۔ انقلابی معاشیات۔۔۔۔ علامہ مضطر عباسی
4۔ اسلام کا مروجہ نظام معاشیات۔۔۔۔۔۔چودھری اسماعیل
5۔ سوشلزم کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ لالہ چھبیل داس