گردہ حاصل کرنے کیلیے کئی نشئی بھی موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں، فائل فوٹو
 گردہ حاصل کرنے کیلیے کئی نشئی بھی موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں، فائل فوٹو

گردہ فروشی میں بیرونی عناصر بھی ملوث قرار

نواز طاہر:
گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث لاہور سے پکڑے گئے چار رکنی گروہ سے اہم انکشافات ہوئے ہیں۔ گروہ کے ہتھے چڑھنے والوں کی تفصیلات بھی جمع کی جارہی ہیں جن کی روشنی میں اس مکروہ دھندے میں غیر ملکی عناصر بھی ملوث ہونا بتایا جارہا ہے۔ تحقیقات کی روشنی میں مزید گرفتاریوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل انسانی اعضا کی پیوند کاری روکنے کیلئے بنائے جانے والے ادارے پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (پی ایچ او ٹی اے) نے ایف آئی اے کے ساتھ مشترکہ کارروائی میں لاہور کے ایک نجی اسپتال، شمع اسپتال میں غیر قانونی ٹرانسپلانٹیشن کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا تھا جن میں اس گروہ کا سرغنہ ڈاکٹر اویس بھی شامل تھا جو پہلے ہی ایسی ہی نوعیت کے کیس میں مطلوب اور کچھ عرصے سے اشتہاری تھا۔

اس گروہ میں شامل افراد میں لاہور کے منشی اسپتال کا آپریشن تھیٹر اسٹنٹ ( ٹکنیشن ) اکبر بھی گرفتار کیا گیا جو ڈاکٹر اویس کے بعد اہم اور فعال ترین کردار بیان کیا جاتا ہے۔ پی ایچ او ٹی اے کی طرف سے ابتدائی انفارمیشن میں بتایا گیاتھا کہ یہ گینگ پانچ سال سے گردوں سمیت انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری کررہا تھا۔ اس کارروائی کے دوران گردہ بیچنے والے چیچا وطنی کے رہائشی عنصر کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ شمع اسپتال میں تازہ ترین پیوند کاری کھاریاں کے امتیاز اور فیصل آباد کی شاہین کی گئی تھی۔

گرفتار شدگان سے قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے تحقیقات کر رہے ہیں۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ گروہ ملک کے مختلف علاقوں میں اپنا شکار لالچ دے کر پھانستے تھے۔ کئی افراد کو نوکری کا جھانسا دے کر بھی پھانسا گیا اور میڈیکل چیک اپ کے نام پر دھوکہ دہی سے بے ہوش کرکے ان کے گردے نکال لئے گئے۔ جبکہ شہر کے مختلف علاقون سے ایسے نشئی افراد کی لاشیں بھی ملتی رہی ہیں جن کے جسم پرکٹ لگے ہوئے ہوتے تھے اور ابتدائی طور پر یہی تصور کیا جاتا رہا کہ نشے کے عادی کسی شخص نے زخمی کیا جس سے ہلاکت ہوگئی۔ لیکن معاملات زیادہ تر لاوارث ہونے کے نکتے پر تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوتی تھی۔

اس پر سب سے پہلے تشویش کا اظہار منشیات کے خلاف آگہی فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ سید ذوالفقار شاہ نے کیا تھا۔ بعد میں مختلف دیگر این جی اوز کی طرف سے اس پر فوکس کیا گیا اور غیر قانونی پیوند کاری روکنے کیلئے مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت مین خصوصی طور پر قانونی سازی کی گئی۔ جبکہ ٹرانسپلانٹیشن کا عمل محفوط بنانے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی پیوند کاری کی روک تھام کیلئے اتھارٹی بھی قائم کی گئی تھی۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق غیر قانونی طور پر انسانی اعضا لگوانے والے، بلکہ اعضا سے محروم ہونے والے بھی دھوکے اور موت کا شکار ہوتے رہے۔ نجی اسپتالوں میں دوران علاج انتقال کرجانے والوں کے بارے میں جامع طریق کار نہ ہونے کے باعث ایسے افراد کا پتا نہ چل سکا۔

ذرائع کے مطابق اس گروہ کا شکار ہونے والے زیادہ تر غریب اور ضرورت مند اور دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ ان میں ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے کارندے زیادہ متحرک پائے گئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ڈیڑھ ماہ قبل بھی لاہور کے ایک نجی اسپتال سے غیر قانونی کڈنی ٹرانسپلانٹیشن کرنے والا گروہ گرفتارہواتھا جس کے بعد محکمہ صحت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تحقیقاتی اداروں کو ایسے گروہوں کی بیخ کنی کا ٹاسک دیا گیا۔ اُس گروہ میں بھی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ایک کارندے کے ساتھ ساتھ سرجن ڈاکٹر طارق رشید، ڈاکٹر عبدالحمید، ڈاکٹر اطہر شاہ اور ڈائیلسس ٹکنیشن شاہد نواز بھٹی کو نجی اسپتال البدر میڈیکل کمپلیکس سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تب مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی خاتون مریضہ سے چوبیس لاکھ روپے وصول کیے گئے تھے اور مریضہ کی حالت بگڑنے پر اس کا عقدہ کھلا۔

ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس گروہ کے لوگ نہ صرف دھوکہ دہی سے شکار پھانستے تھے، بلکہ دوسرے شہروں سے آنے والوں کو پناہ دینے اور راستہ بھولنے والوں کو اس کی منزل تک پہنچانے کے بہانے اغوا کرکے اعضا نکال لیتے تھے اور فروخت کردیتے تھے اور بعد میں یہی اعضا جعلی ڈونر دکھا کر پندرہ سے پچاس لاکھ روپے میں فروخت کردیتے تھے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار گروہ سے جاری تحقیقات میں اس گروہ سے اندرون و بیرون ملک رابطہ کاروں کی معلومات بھی حاصل ہوئی ہیں، جن کی تصدیق کی جارہی ہے۔ غالب امکان ہے کہ ان تفصیلات کی رووشنی میں مزید گروہ بے نقاب اور گرفتار ہوسکتے ہیں۔