محمد قاسم:
صوبہ خیبر پختونخواہ میں جعلی نوادرات کا دھندا عروج پر پہنچ گیا۔ نوسر ساز تاریخی نوادرات کی نقل تیار کر کے زمین میں دفن کر دیتے ہیں اور پھر پانچ چھ ماہ بعد نکالنے کے وقت فلم بندی کر کے آن لائن گاہکوں کو ارسال کرکے ان کو دھوکہ دیتے ہیں۔ پولیس اور محکمہ آرکیالوجی کی مشترکہ کارروائی سے کروڑوں روپے کے جعلی نوادرات اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ جبکہ بین الاقوامی گینگز کے کارندوں کی گرفتاری کے لئے وفاقی اداے ایف آئی اے سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی عبدالصمد کے مطابق پشاور میں آرکیالوجی کے ماہرین اور پولیس نے نقلی نوادرات اسمگل کرنے کی کوشش کرنے والے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کا سراغ لگایا ہے۔ مذکورہ نیٹ ورک میںآرکیالوجی کا علم اور جدید آلات استعمال کرنے کے ماہر شامل ہیں۔ جو جعلی نوادرات تیار کرکے آن لائن عالمی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گینگ کے ارکان ملک بھر کے عجائب گھروں میں وزٹ کے دوران وہاں رکھے تاریخی نوادرات کی تصویریں کھینچتے ہیں اور پھر اس کی نقول بناکر تاریخی اہمیت اور تفصیلات کے ساتھ آن لائن فروخت کیلئے پیش کرتے ہیں۔
ڈی جی عبدالصمد کے مطابق نیٹ ورک کروڑوں روپے کے جعلی نوادرات اسمگل کر چکا ہے۔ نیٹ ورک کے کارندے نوادرات کی نقول بنانے کے بعد ان کو کئی ماہ تک زمین میں دفن رکھتے ہیں اور نکالتے وقت اس کی باقاعدہ فلم بندی کی جاتی ہے۔ تاکہ بین الاقوامی گاہکوں کو یقین دلایا جائے کہ ان نوادرات کو کھدائی کے دوران زمین سے نکالا گیا ہے۔
اس حوالے سے پولیس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ روز پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز کاشف ذوالفقار کو اطلاع دی گئی تھی کہ آن لائن جعلی نوادرات فروخت کیے جارہے ہیں۔ جس پر انہوں نے چھان بین شروع کر دی اور مقامی گاہک بن کر خریدنے کی کوشش کی۔ پھر مطلوبہ دن پشاور بس ٹرمینل حاجی کیمپ اڈے کے قریب چترال سے تعلق رکھنے والے ایک شخص شیر ولی ولد اکبر ولی کو کروڑوں روپے کے جعلی نوادرات کے ساتھ گرفتار کرلیا۔
ماہرین سے معائنہ کروایا تو معلوم ہواکہ پکڑے جانے والے نوادرات نقلی ہیں اور ایک منظم گروہ اس میں ملوث ہے۔ اس دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ اس کا گینگ اسی طرح کروڑوں روپے کے جعلی نوادرات کو بدھ مت کے نوادرات قرار دے کر چین اسمگل کرچکا ہے اور یہ کام ایک منظم انداز میں کیا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم نے جعلی نوادرات فوم میں چھپاکر اسمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق ملزم نے مقامی دیگر ملزمان کی نشاندہی بھی کر دی ہے اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق اس گروہ کے کارندے اتنے ماہر ہیں کہ نقلی نوادرات کے ساتھ اصل نوادرات کے کچھ حصے لگاکر اصل قیمت پر فروخت کرتے تھے۔ اور خدشہ ہے کہ یہ گروہ اصل کو نقل قرار دے کر پولیس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ تاہم چونکہ خیبرپختونخواہ کی پولیس کی اس حوالے سے کوئی تربیت نہیں اور آرکیالوجی کے ماہرین کی بھی کمی ہے۔ وہ تو سرکاری عجائب گھروں میں رکھے نوادرات کی حفاظت کر رہے ہیں اور اسمگلر اس کا فائدہ اٹھاکر ملک کے تاریخی اثاثے باہر منتقل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ گروپ اصل کو نقلی قرار دے کر بھی اپنے آپ کو چھڑا سکتا ہے اور نقلی کی سزا انتہائی کم ہے۔ کیونکہ نقل بنانے پر عدالتوں سے کم سزا ملتی ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کو اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ پولیس کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔ جو اصل اور نقل میں پہچان کر سکے۔ ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق اصل میں خیبرپختونخواہ بدھ مت کا مذہبی اور ثقافتی مرکز رہا ہے اور اسی وجہ سے لوگ بدھ مت کے نقلی نوادرات بناکر جاپان، کوریا، چین اور ویت نام بھجوا دیتے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک میں بدھ مت کے عقیدت مندوں کی تعداد زیادہ ہے اور اس حوالے سے چین کے علاوہ دیگر مذکورہ ممالک کے عجائب گھروں کو یہ نوادرات بھجوانے میں سختی نہیں ہے، کہ ان کو یہ چیزیں مذہبی طور پر قبول ہیں اور ان ممالک کے افسران ان مورتیوں کی بے حرمتی سے بھی ڈرتے ہیں۔ جس کا یہ اسمگلرز فائدہ اٹھارہے ہیں۔
تاہم ذرائع کے مطابق اب اس حوالے سے ایف آئی اے سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ گرفتار ملزم کے باقی ماندہ ارکان کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ کیونکہ اس سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ بلکہ پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔