معاملہ نوٹس میں آنے پر صدر مملکت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، فائل فوٹو
 معاملہ نوٹس میں آنے پر صدر مملکت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، فائل فوٹو

زرداری نے بگٹیوں کو واپس بھیج دیا

ارشاد کھوکھر:
کلپر بگٹی سردار کے بیٹے کے قتل کا انتقام لینے کے لئے پنجاب پولیس کے ساتھ کچے میں اترنے والے کلپر بگٹی قبیلے کے مسلح افراد کا معاملہ صدر مملکت آصف علی زرداری تک بھی پہنچ گیا۔ کلپر بگٹیوں کی جانب سے قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر صدر مملکت نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کلپر بگٹی لشکر کو واپس بھیجنے کا حکم جاری کیا۔

واضح رہے کہ بگٹی قبیلے کے مسلح افراد نے تقریباً تین دن کچے کے آپریشن میں حصہ لیا۔ اور اپنے سردار کے بیٹے کا انتقام لیتے ہوئے پانچ ڈاکوئوں کو ٹھکانے لگایا، جس کے بعد وہ اب کچے کے علاقے سے واپس جاچکے ہیں۔ علاوہ ازیں کندھ کوٹ کے چھ سالہ بچے ایاز پٹھان کے اغوا اور اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے پر ڈاکوئوں کے گینگز نے ایک دوسرے کو بھی للکارنا شروع کیا تھا۔ بچے کی بازیابی کے بعد اس کے اہل خانہ کندھ کوٹ سے کوئٹہ منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔ ادھر تین روز قبل اغوا ہونے والے اہلکار نوید جکھرو کو سبزوئی گینگ سے بازیاب کرانے کے لیے سندھ پولیس، سبزوئی قبیلے کے گرفتار کردہ افراد کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔

موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے کچے کے علاقے میں شروع کردہ آپریشن کے اب تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ اب بھی ڈیڑھ سے دو درجن مغوی، ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں۔ تقریباً ایک ماہ قبل کندھ کوٹ سے اغوا کئے گئے پانچ بینک ملازمین کی رہائی بھی عمل میں نہیں آسکی ہے۔ تاہم پولیس کی جانب سے گزشتہ تین دن کے دوران دو ڈاکومقابلے میں مارے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ تقریباً تین ماہ قبل ضلع گھوٹکی میں موٹر وے پر کلپر بگٹی سردار جلال خان کے بیٹے عبدالرحمن کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہوجانے کے بعد بدلہ لینے کی غرض سے کلپر بگٹی قبیلے کے مسلح افراد پنجاب پولیس کے ساتھ پانچ مئی کو کچے کے علاقے میں اترے تھے۔ مقامی ذرائع کے مطابق انہوں نے شرگینگ کے سرغنہ ثنو شر کے بھائی عالم شر اور حاکم شر سمیت تقریباً پانچ ڈاکو ہلاک کئے۔ جبکہ پنجاب پولیس مذکورہ آپریشن میں تین ڈاکوئوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کرچکی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ قبیلے کے کچے کے علاقے میں داخل ہونے پر سندھ پولیس کی جانب سے ان سے تعاون نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام اس معاملے میں محتاط ہوگئے تھے۔ جب کہ اس سے عوامی حلقوں میں یہ تاثر بھی عام ہورہا تھا کہ جب ایک قبیلے سے تعلق رکھنے والے پرائیوٹ پرسن اپنے سردار کے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے ڈاکوئوں کے گائوں پر دھاوا بول دیتے ہیں تو پھر ایسے میں پولیس اور دیگر ادارے یہ کام کیوں نہیں کرسکتے؟ اس سے پولیس اور ریاست کے کمزور ہونے کا تاثر بھی پیدا ہورہا تھا۔ اور کئی مقامی قبائلی سرداروں اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ اگر یہ ٹرینڈ چل پڑا تو پھر کچے کے علاقے میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ نقصان ہونے پر کسی بھی قبیلے کے مسلح افراد قانون ہاتھ میں لے کر خود بدلہ لینے کے لئے پہنچ جائیں گے۔ اس لئے اس ٹرینڈ کو روکا جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ بالآخر یہ معاملہ صدر مملکت آصف زرداری تک بھی جا پہنچا۔ انہوں نے بھی نجی افراد کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کے عمل پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے ناصرف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بلکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو بھی احکامات جاری کئے تھے کہ کلپر بگٹی قبیلے کے مسلح افراد کو کچے سے واپس بھیج دیا جائے۔ اس طرح تین دن کچے کے آپریشن میں حصہ لینے کے بعد کلپر بگٹی لشکر 8 مئی کو واپس چلا گیا۔

کچے کے ڈاکو کتنے طاقتور ہوچکے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین روز قبل کندھ کوٹ کے علاقے میں ڈاکوئوں نے ایک پولیس پکٹ پر حملہ کیا، جس میں زخمی ہونے والے سی ٹی ڈی کے اہلکار نوید احمد جکھرو کو زخمی حالت میں اغوا کرکے لے گئے۔

ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مذکورہ پولیس اہلکار پر تشدد کرنے کی ویڈیو جاری کردی جس میں پولیس اہلکار روتے ہوئے چیخ چیخ کر آئی جی سندھ پولیس ، ڈی آئی جی لاڑکانہ، ایس ایس پی کشمور کی منتیں کر رہا ہے کہ ’’سبزوئی قبیلے کے گرفتار کردہ افراد کو رہا کیا جائے۔ ورنہ یہ ڈاکو مجھے آج رات ماردیں گے‘‘۔ جس کے بعد گزشتہ روز مذکورہ پولیس اہلکار کی ڈاکوئوں سے رہائی عمل میں آئی ہے اور پولیس کا وہی روایتی موقف سامنے آیا ہے کہ پولیس اہلکار کو مقابلے کے بعد آزاد کرایا گیا ہے۔

جبکہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ پولیس اہلکار کی رہائی ایسے نہیں ہوئی، بلکہ پولیس نے سبزوئی قبیلے کے جن افراد کو گرفتار کیا تھا، انہیں رہا کرنے کے بدلے میں پولیس اہلکار کی واپسی عمل میں آئی ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ نوید جکھرو کے اغوا ہونے کے بعد پولیس نے ڈاکوئوں کا پیچھا ضرور کیا اور پولیس مقابلے میں ایک ڈاکو دلبر عرف دلو ملک مارا گیا۔

ڈاکوئوں کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اب معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔ تقریباً چار ہفتے قبل کندھ کوٹ سے ایک پانچ سے چھ سالہ بچے ایاز پٹھان کو بھی اغوا کیا گیا۔ اور اس معصوم بچے کو زنجیروں میں جکڑ کر اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کردی گئی۔ اس معصوم بچے کو زنجیروں میں اس لئے نہیں جکڑا گیا تھا کہ وہ کچے کے علاقے سے کہیں بھاگ نکلے گا۔ بلکہ اس کا مقصد بچے کے والدین اور رشتہ داروں کو اذیت دینا تھا، تاکہ وہ اپنے بچے کی رہائی کے لئے تاوان دینے پر مجبور ہوجائیں۔

مذکورہ بچے کی ویڈیو وائرل ہونے پر ضلع گھوٹکی میں شر گینگ کے سرغنہ ثنو شر نے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو جاری کردی جس میں وہ مذکورہ بچے کو اغوا کرنے والے ڈاکوئوں کو للکار رہا ہے کہ مغوی معصوم بچے کو فوری طور پر آزاد کیا جائے۔ ورنہ وہ ان ڈاکوئوں کے خلاف ایسی ویڈیوز جاری کرے گا کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

ویڈیو میں ثنو شر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ، معصوم بچوں کا اغوا ان کی روایات کے خلاف ہے۔ اور یہ اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ جہاں تک شر گینگ کے سرغنہ ثنوشر کے اپنے کردار کی بات ہے تو اس گینگ کا کردار بھی ظالمانہ ہے۔ جہاں تک اخلاقیات کی بات ہے تو اپنی عورتوں کو استعمال کرکے لوگوں کو اپنے پاس بلواکر مغوی بنانے کا کام بھی اس کا گینگ کرتا رہا ہے۔ مذکورہ بچہ ایاز پٹھان 10 مئی کو ڈاکوئوں کے قبضے سے آزاد ہوکر گھر پہنچ گیا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مذکورہ بچے کا خاندان گزشتہ روز کندھ کوٹ سے مستقل طور پر کوئٹہ منتقل ہوگیا۔

موجودہ حکومت کی جانب سے ضلع گھوٹکی، ضلع کشمور کندھ کوٹ، ضلع شکارپور کے کچے کے علاقے میں شروع کئے گئے آپریشن کو تقریباً ایک ماہ ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک ڈیڑھ سے دودرجن مغوی افراد ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں جن میں تقریباً ایک ماہ قبل کندھ کوٹ سے اغوا ہونے والے پانچ بینک ملازمین بھی شامل ہیں۔ اور اب تک ان مغویوں کی آزادی عمل میں نہیں آئی ہے۔ جو بھی مغوی افراد گھر واپس پہنچ جاتے ہیں ، ان کی واپسی اکثر ڈاکوئوں کو ادا کئے گئے تاوان کے بدلے ہوتی ہے۔ مگر پولیس کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ مغوی پولیس مقابلے کے بعد رہا کرائے گئے ہیں جس کی ایک واضح مثال یہ بھی دیتے چلیں کہ کلپر بگٹی قبیلے کے مسلح افراد نے جن ڈاکوئوں کو ہلاک کیا، ان کی ہلاکت کے متعلق بھی پنجاب پولیس یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ ڈاکو پنجاب پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔

یہ بات ضرور ہے کہ اس آپریشن میں چند ڈاکو ہلاک ضرور ہوئے ہیں۔ لیکن جس قسم کی موثر کارروائی ہونی چاہیے، وہ ابھی تک نہیں ہوسکی تاہم گزشتہ روز بھی ضلع گھوٹکی کے راونتی کے کچے کے علاقے میں پولیس مقابلے میں بدنام زمانہ ڈاکو چاندی شر کا بھتیجا لالو شر ولد علی شر مارا گیا۔ پولیس کے مطابق مذکورہ آپریشن راونتی تھانے کے ایس ایچ او عبدالشکور لاکھو کی سربراہی میں ہوا۔

واضح رہے کہ عبدالشکور لاکھو وہ پولیس افسر ہیں جنہیں نگراں دور حکومت میں ڈاکوئوں کے لیے مخبری کرنے کے الزام میں ڈی پورٹ کرایا گیا تھا۔ بعد ازاں موجودہ حکومت آنے کے بعد انہیں واپس اسی تھانے میں ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے۔