ایک بیگم صاحبہ کا گروپ ہے، ایک علیمہ خان کا گروپ ہے، فائل فوٹو
ایک بیگم صاحبہ کا گروپ ہے، ایک علیمہ خان کا گروپ ہے، فائل فوٹو

جسٹس بابرستار کو ایک سال بعد یاد آ رہا ہے،فیصل واوڈا

اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ 30 اپریل کواسلام آباد ہائیکورٹ کےججزکوخط لکھا مگر 15 روزہوگئے مگر کوئی جواب نہیں آیا، جسٹس بابرستار کو ایک سال بعد چیزیں یاد آرہی ہیں، صرف الزمات سے کام نہیں چلے گا اب الزامات کےشواہد بھی دینا پڑیں گے۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ لوگوں کے دلوں میں شک وشبہات آرہے ہیں، اگرالزامات کاریکارڈ نہیں توتشویش ہوگی، میں سینیٹرہوں مجھےجواب نہیں مل رہاتوعام آدمی کوکیسے ملے گا، کوئی پیپرورک ہے تو وہ فراہم کیاجانا چاہیے۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ آرٹیکل 2کےتحت کہا گیا کہ کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے، بتایا جائے کس نے آپ کےکام میں مداخلت کی، جسٹس اطہرمن اللہ تاریخی فیصلےکرتے ہیں، تاریخ جسٹس اطہر من اللہ کویادرکھےگی۔

سوا ل ہے جج دہری شہریت پر کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟ آپ کے لیے شراب حلال اور ہمارے لیے حرام ہے، پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ مذاق اور کھلواڑ ہوگیا ہے، یہ شک و شبہات ختم ہونا چاہیے، امید کررہا ہوں جواب جلد آئے گا،آنا چاہیے اورہم جواب لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے بارڈرز پر فوجی اور پولیس والے اپنی جانیں دیں گے، بار بار انٹیلی جنس اداروں کا نام لیا جارہا ہے، شواہد دیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھاکہ ہمیں پاکستان کو معاشی بحران سے بچانا ہے، اب جو پاکستان میں پگڑی اچھالے گا تو ان کی پگڑیوں کا فٹ بال ہم بنائیں گے، کوئی احترام کرے گا تو ڈبل احترام کریں گے، کوئی بدمعاشی کرے گا تو ڈبل بدمعاشی کریں گے، ہمارے اداروں کا مذاق اڑایا جارہا ہے، سیاستدان بھی شامل ہیں، یہ سب بند کریں، اگر اداروں کی کہیں مداخلت ہے تو ثبوت دیں ہم ساتھ کھڑے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پردوں کے پیچھے بات نہ کریں کھل کر سامنے آکر بات کریں، میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس عائشہ ملک کے سامنے پیش ہوا ہوں، میرا گمان ہےاطہر من اللہ شہہ سرخیوں کیلئے فیصلے نہیں ،لکھت پڑت پر کرتے ہیں، ان سب چیزوں کو ایڈریس کریں، مجھے ان چیزوں کا جواب 19اے کے مطابق ملنا چاہیے۔

سینیٹر فیصل واوڈا کا  مزید کہا کہ میں ایک سینیٹر ہوں،قانون بھی بناؤں گا اور عمل بھی کراؤں گا، میں کسی کا ترجمان نہیں ہوں، میں پاکستان کی بات کررہا ہوں، سوشل میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے اس کی مذمت کرتے ہیں۔