امت رپورٹ:
خالصتان کے نعرے بھارتی دارالحکومت دہلی تک پہنچ گئے ہیں۔ کرول میٹرو اسٹیشن کی دیواروں پر ’’خالصتان زندہ باد‘‘ اور ’’مودی دہشت گرد‘‘ کی چاکنگ نے مودی سرکار کی نیند اڑادی ہے۔ دوسری جانب کینیڈا میں ایک اور خالصتان ریفرنڈم کی تیاریاں عروج پر ہیں۔
ٹھیک اس دوران کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کیس کے سلسلے میں ایک اور بھارتی شہری گرفتار ہوا ہے۔ جسے ’’را‘‘ نے خصوصی ٹاسک دے کر بھیجا تھا۔ اس معاملے پر بھارت اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔ جبکہ امریکہ میں ایک اور سکھ رہنما کے قتل کی سازش میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کی تحقیقات نے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بھی تلخی پیدا کر رکھی ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب بھارت میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ان واقعات کا اثر مودی کی انتخابی مہم پر بھی پڑ رہا ہے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ ان ایشوز سے بھارتی ووٹرز کی توجہ مبذول کرائے۔ آزاد کشمیر میں آٹے اور بجلی کی قیمتوں پر ہونے والے احتجاج نے اسے یہ موقع فراہم کیا اور سارا بھارتی میڈیا تین روز تک اس ایشو کو لے کر بے بنیاد اور زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک شخصیت پرست ٹولہ بھی اس معاملے میں بھارتی میڈیا کا ہمنوا بن گیا۔ اسے یہ توفیق نہ ہوئی کہ بیرون ملک لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے تشکیل کردہ مودی کے ’’قاتل گروپ‘‘ کا چہرہ بے نقاب کرتا۔ بلکہ وہ اس تھالی میں چھید کرتا رہا، جس میں کھاتا ہے۔
گیارہ مئی کی صبح جب دہلی کے لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو کرول کے میٹرو اسٹیشن پہنچنے والوں نے دیکھا کہ میٹرو اسٹیشن کی دیواروں پر جلی حروف میں کسی نے خالصتان کے حق میں اور مودی کے خلاف چاکنگ کر رکھی ہے۔ لوگوں کی حیرانی اپنی جگہ۔ یہ حکومتی مشینری کے لئے ایک چیلنج اور اچھنبے کی بات تھی کہ بھارتی دارالحکومت کے ایک اہم میٹرو اسٹیشن کی دیواروں پر، جہاں روز ہزاروں لوگ سفر کے لئے آتے ہیں، اس طرح کی چاکنگ کون کرگیا۔ سو انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔ تاہم چار روز گزرنے کے باوجود انتظامیہ چاکنگ کرنے والوں کا سراغ نہیں لگاسکی ہے۔
ادھر امریکہ میں موجود خالصتان تحریک کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیم ’’سکھ فار جسٹس‘‘ کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے اس چاکنگ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ’’دہشت گرد مودی سرکار کان کھول کر سن لے، خالصتان کے سورما دہلی کے اندر پہنچ چکے ہیں‘‘۔
بیرون ملک مقیم لاکھوں سکھوں کی جانب سے بھارتی پنجاب کو ایک الگ ریاست بنانے کی سرگرمیوں اور خاص طور سے پچھلے چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں خالصتان ریفرنڈم کے سلسلے نے بھی بھارتی حکومت کے حواس گم کر رکھے ہیں۔ وہ ان ریفرنڈم کو ملک کی سالمیت کے لئے سنگین خطرہ تصور کرتی ہے اور اس قدر زچ آچکی ہے کہ اس نے ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کے ذریعے امریکہ اور کینیڈا میں خالصتان تحریک کے سرگرم رہنمائوں کو نشانہ بنانے کی سنگین غلطی کردی، جو اب اس کے گلے پڑی ہوئی ہے۔
گزشتہ سال جون میں کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں رواں برس مئی میں کینیڈین پولیس نے اس قتل کیس میں تین بھارتی شہریوں کو گرفتار کیا۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تینوں مودی کے ’’ہٹ مین اسکواڈ‘‘ کا حصہ تھے اور ’’را‘‘ نے انہیں اسٹوڈنٹ ویزے پر کینیڈا بھیجا تھا۔ تاکہ ہردیپ سنگھ نجر سمیت دیگر سکھ رہنمائوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ نجر، خالصتان ریفرنڈم میں پیش پیش ہوتے تھے اور بھارتی حکومت نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی۔
قبل ازیں کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ اس قتل میں بھارت ملوث ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ جب کینیڈین پولیس نے بھی اپنی تحقیقات میں یہی عندیہ دیا تو تعلقات میں مزید تلخی آگئی۔ پہلے بھارت نے دھونس دھمکی سے کام چلانے کی کوشش کی۔ تاہم پھر گھٹنے ٹیک دیے اور اب بھارتی حکام اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن کینیڈا نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی صورت ہردیپ سنگھ نجر قتل کیس کی تحقیقات نہیں رکیں گی اور اس واردات میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد مل جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
چند روز پہلے کینیڈین پولیس نے اس قتل کیس میں ایک چوتھے بھارتی نوجوان امن دیپ سنگھ کو گرفتار کیا ہے، جس سے تفتیش جاری ہے۔ امریکہ میں بھی سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کے منصوبے میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد مل گئے ہیں۔ جس پر امریکی حکام نے سخت رد عمل دیا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری آگئی ہے۔ مودی سرکار نے آخرکار یہ تسلیم کرلیا ہے کہ پنوں کے قتل کے منصوبے میں بھارتی ملوث تھے۔ تاہم ان کا تعلق حکومت سے نہیں تھا۔ لیکن تحقیقات سے بھارتی دعوے کی نفی ہو رہی ہے اور سارے تانے بانے ’’را‘‘ سے مل رہے ہیں۔ جس کے سبب مودی سرکار کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
ایسے میں رواں برس اٹھائیس جولائی کو ’’سکھ فار جسٹس ‘‘ کیلگری کینیڈا میں ایک اور خالصتان ریفرنڈم کرانے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں تیاریاں عروج پر ہیں۔ کینیڈا کے مختلف شہروں میں جلسے کیے جارہے ہیں۔ جس میں خواتین سمیت ہزاروں سکھ شرکت کر رہے ہیں اور مشرقی پنجاب پر بھارت کے قبضے کے خلاف تقاریر کی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ ان ریفرنڈم کا سلسلہ ’’سکھ فار جسٹس‘‘ چند سال پہلے شروع کیا تھا اور اب تک امریکہ، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت خالصتان کی آزادی کے لئے متعدد ریفرنڈم کرائے جاچکے ہیں۔ جس میں لاکھوں سکھوں نے الگ ریاست کے لئے ووٹ دیے۔
یہ ریفرنڈم بھارتی حکومت کے لئے کس قدر دردسر ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا کے وزرائے اعظم سے بھارتی وزیراعظم مودی نے براہ راست رابطہ کرکے یہ سلسلہ رکوانے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ اس قسم کے ریفرنڈم ان کے ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ تاہم کسی بھی ملک نے مودی کی فریاد پر کان نہیں دھرا۔
بھارت کو اصل خوف یہ ہے کہ ان ریفرنڈم کے نتیجے میں مشرقی پنجاب کی نوجوان نسل تیزی کے ساتھ خالصتان تحریک کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بھارتی فوج میں موجود سکھ افسران اور اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد خالصتان تحریک کی حامی بن چکی ہے۔ چنانچہ بھارت کو فوج میں بغاوت کا خوف ہے۔ یہ انکشاف برطانیہ میں خالصتان تحریک کے رہنما رنجیت سنگھ نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تھا۔ اٹھارہ جون کو سکھ رہنمائوں نے کینیڈا میں ایک عوامی عدالت لگانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جس میں بھارتی ہائی کمشنر سنجے کمار اور مودی کو علامتی سزا سنائی جائے گی۔ دو روز پہلے کیلگری کینیڈا میں سکھ برادری نے ایک بڑی ریلی بھی نکالی۔ جس میں پچاس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ ریلی کے ساتھ ایک بڑا ٹرالر بھی تھا۔ جس پر خالصتان کی آزادی کے نعروں کے ساتھ بھارتی ہائی کمشنر اور مودی کے پتلے کھڑے کیے گئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ’’میں نے نجر کو قتل کیا‘‘ کے پلے کارڈز تھے۔
ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں بھارت کے چہرے پر کالک ملی جارہی ہے تو انڈین میڈیا کی کوشش ہے کہ وہ اس ایشو کو کسی طرح دبا دے۔ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج کو بھارتی میڈیا نے اسی مقصد کے لئے استعمال کیا۔ جب بھارتی میڈیا اس سلسلے میں جھوٹی کمپین چلا رہا تھا تو تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ جبکہ تحریک انصاف کے حامی بعض بدبودار ولاگرز بھی پیش پیش تھے۔
9 مئی میں ملوث چند پی ٹی آئی رہنمائوں نے بھی اس آگ کو بھڑکانے میں رول ادا کیا۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ قاتل بھارت اور دہلی میں خالصتان کی گونج پر ایک آدھ ٹویٹ یا فیس بک پر کوئی پوسٹ کردیتا۔ سب اپنی ہی تھالی میں چھید کرتے رہے۔ آزاد کشمیر سے بڑھ کر احتجاج آئے روز بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے کبھی اس پر کوئی ہیش ٹیگ نہیں بنایا۔ اس پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کو کیسے کمزور کرنا ہے۔ بعض سیاسی بھانڈوں نے آزاد کشمیر کے احتجاج کا مقبوضہ کشمیر کے حالات سے موازنہ کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کی۔ ان میں رنگ برنگے بالوں والی بوڑھی شیریں مزاری بھی شامل ہیں۔