شایان احمد:
قازقستان میں قاتل سابق وزیر کے خلاف تاریخی مقدمہ نمٹ گیا ہے۔ تمام گواہان اور شواہد کی روشنی میں قازقستان کے سپریم کورٹ نے 44 سالہ سابق وزیر کوانڈک بیشم بائیف کو عمر قید کی سزا دی ہے، جس سے وسط ایشیا کے اس ملک میں خواتین کو اعتماد ملا ہے۔ اس مقدمے کو بہت سے لوگوں نے خواتین کے حقوق سے متعلق صدر کے وعدے کا امتحان قرار دیا تھا۔ جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔
پیر کے روز سابق وزیر اقتصادیات کوانڈک بیشم بائیف کو سپریم کورٹ نے قصور وار پایا اور سزا سنائی۔ اس کیس کی سماعت گزشتہ 7 ہفتوں سے جاری تھی۔ جو براہ راست نشر بھی کی گئی۔ اس تاریخی کیس کو حکام کی جانب سے یہ پیغام دینے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اشرافیہ اب قانون سے بالاتر نہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال وسطی ایشیائی ملک قازقستان کے وزیر اقتصادیات کے طور پر کام کرنے والے کوانڈک بیشم بائیف کو گزشتہ برس نومبر میں اپنی بیوی کو بے دردی سے مارنے کا مجرم پایا گیا۔
غیر ملکی جریدے این پی آر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ نومبر 2023ء میں کوانڈک بیشم بائیف اپنی اہلیہ سلطنت نوکینوا کو کھانا کھلانے کیلئے اپنے کسی عزیز کے ریسٹورنٹ میں لے گیا تھا۔ جہاں ایک وی آئی پی کمرے میں 31 سالہ سلطنت کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ اسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے اس کا سر کئی بار دیوار پر مارا۔ جس کے باعث ایمبولینس موقع پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کی موت ہوگئی۔ یہ تمام واقعہ سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا۔ جو عدالت میں ناقابل تردید جرم ثانت ہوا۔
مقدمہ کے دوران جب سلطنت کے جسم پر تشدد کی فارنسک رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی تو اسے دکھانے میں بھی 30 منٹ لگے۔ تاہم مقدمے کی سماعت کے دوران سابق وزیر کوانڈک بیشم بائیف نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کا اعتراف تو کیا۔ لیکن اس نے اس پر تشدد کرنے یا اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی سے انکار کیا۔ عدالت نے قتل اور ظلم (ٹارچر) کی دو دفعات کے تحت سزا سنائی ہے۔
واضح رہے کوانڈک بیشم قازقستان کی سیاست میں گولڈن بوائے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کا سیاسی کیریئر داغدار تھا۔ ان پر کرپشن کے مقدمات بھی بنے، لیکن ماضی کے صدور نے انہیں فوری معاف کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں غرور ہوگیا تھا کہ انہیں ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اس کیس نے ملک میں گھریلو تشدد پر ایک وسیع بحث چھیڑ دی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ نے گزشتہ ماہ گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے والا قانون بھی منظور کیا۔
صدر قاسم جومارت توکایف نے کہا ہے کہ وہ خواتین کے بہتر حقوق سمیت ایک منصفانہ معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حکومتی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ وسطی ایشیائی ملک میں چھ میں سے ایک عورت کو کسی مرد ساتھی کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ سرکاری طور پر یہاں ہر برس 80 سے زائد خواتین کے قتل ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 400 خواتین گھریلو تشدد سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار زیادہ ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ بہت سے کیس رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔