اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنما مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسہ خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا، ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟
اسلام آباد میں دیگر ایم کیو ایم رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کیا دہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی اسمبلی نہیں بن سکتا؟ تمام اداروں میں دہری شہریت کے قوانین لاگو ہونے چاہئیں۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسہ خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری خلفشار کی وجہ سے ریاست میں کشمکش ہے، اس طرح کی سیاسی صورتحال سے ایک سیاسی کارکنان خاموش نہیں رہ سکتا ہے، عدلیہ نے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر گھر بھیج کر ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا ہے، عدلیہ جیسے ادارہ میں قول و فعل میں تضاد آرہا ہے، کیا دہری شہریت والے کسی شخص کو عدالت کا جج ہونا چاہیے؟
ان کا کہنا تھا کہ ایک جج کی مبینہ دہری شہریت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو جواب یہ آیا کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ دہری شہریت رکھنے والا شخص جج نہ بن سکے، ذرا تصور کریں کہ جب آپ شہریت کا حلف اٹھاتے ہیں تو آپ اس ملک سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، آپ کسی ملک سے وفاداری کا حلف اٹھائیں اور ملک کے سب سے معتبر ادارے کی کرسی پر بیٹھ جائیں، اور لوگوں کی قسمت کے فیصلے کریں۔
انہوں نے کہا کہ صرف عام لوگ ہی نہیں آپ اتنے طاقتور ہوں کہ وقت کے وزیراعظم کو گھر بھیج سکیں، اور آپ کے اوپر یہ پابندی ہی نہیں کہ دہری شہریت نہیں رکھ سکتے، یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ عدلیہ کو اس بات کا جواب دینا چاہیے، ایک جج کے بارے میں سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ہم یہ ساری گفتگو دیکھ رہے ہیں کہ ان کے پاس گرین کارڈ ہے، ان کے خاندان کے پاس شہریت ہے، جو پروسیجر اپنایا جانا چاہیے تھا جج بننے کے لیے وہ نہیں اپنایا گیا، یہ سب چیزیں ہم دیکھ اور سن رہے ہیں۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب کوئی متاثرہ شخص عدالت میں آئے تو اس کو تحفظ کا احساس ہو لیکن پاکستان میں کسی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے عدلیہ تیار نہیں ہے، وہ سارے کیسز چلتے ہیں جن سے ہیڈلائنز بنتی ہیں، جن کے ٹکرز چلتے ہیں، دیگر کیسز سالہا سال پڑے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ایک جج کو تکلیف پہنچی، ایک جج کے خط پر سوموٹو ہوگیا، سود کے معاملے پر جہاں اللہ کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اللہ سے جنگ پر آمادہ ہیں وہاں پر کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی، وہاں کوئی تکلیف نہیں ہو رہی، ایک دن کے فیصلے کی مار ہے کہ ساری اپیلیں مسترد ہوجاتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت کے وزیراعظم کو اقامہ رکھنے پر گھر بھیج دیں اور خود وہ اگر فرض کریں امریکا کی وفاداری کا حلف اٹھالے، آج گوکہ نہیں اٹھایا ہوا لیکن اہل خانہ نے حلف اٹھایا ہوا ہے، یہ بہت بڑے بڑے سوالات ہیں، ان کا ہمیں جواب چاہیے کہ ملک میں ہو کیا رہاہے، ہم کس طرف جا رہے ہیں۔