شایان احمد:
ویت نام میں ایک تیرتی ہوئی پْراسرار جھیل دریافت ہوئی ہے، جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ اس جھیل کی پْراسراریت نے ایڈونچر کے رسیا افرادکو راغب کرنا شروع کر دیا ہے۔ جو کہ اس نئے ایڈونچر پوائنٹ کا رْخ کر رہے ہیں اور قدرت کے اس شاہکار پر حیران و ششدر ہیں۔
دی انویسٹر نامی ویب سائٹ نے ویت نام نیوز کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ تیرتی جھیل ویت نام کے قدرتی ثقافتی ورثے میں شامل ایک علاقے سے دریافت ہوئی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ دریافت وسطی ویت نام کے صوبے کوانگ بنہ میں جنگل باس ایڈونچر ٹورازم کمپنی کی ایک مہم میں دریافت کیا گیا اور اس کا باقاعدہ اعلان کمپنی کے ڈائریکٹر لی لو ڈنگ نے کیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ پراسرار جھیل فوننگ نہ کے بنگ نیشنل پارک کے اندر تھنگ غار میں دریافت ہوئی ہے، جو غار کے داخلی دروازے سے تقریباً ایک کلومیٹر دور اور غار کے اندر زیر زمین دریا کی مرکزی شاخ سے 15 میٹر اونچے علاقے میں ہے۔
ماہرین اب تک جھیل میں بہنے والے پانی کے ذرائع کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ تاہم کھوجی ٹیم نے تھنگ غار کی دیوار کے ساتھ ایک راستہ بھی دریافت کیا ہے جو زیر زمین دریا کی اہم شاخ سے گزرتا ہے۔ سٹالیکٹائٹ کالموں یعنی نوک دار پتھروں سے گھری ہوئی اس جھیل کے پانی کا رنگ چمکدار زمرد سبز ہے اور اس کو اس کے منفرد مقام کی وجہ سے عارضی طور پر لو لنگ (تیرتی) جھیل کا نام دیا گیا ہے۔
ماہرین اب تک جھیل میں بہنے والے پانی کے ذرائع کا تعین نہیں کر سکے ہیں تاہم کھوجی ٹیم نے تھنگ غار کی دیوار کے ساتھ ایک راستہ بھی دریافت کیا ہے جو زیر زمین دریا کی اہم شاخ سے گزرتا ہے۔ کمپنی ڈائریکٹر ڈنگ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ٹیم کے ارکان ضروری گہرائی کو محسوس کرنے والے آلات کی کمی کی وجہ سے جھیل کے پانی کے ذرائع کا تعین نہیں کرسکے ہیں تاہم وہ جلد ہی اس علاقے میں مزید سروے اور تلاش کے لیے واپس آئیں گے۔
واضح رہے کہ فوننگ نہ کے بنگ نیشنل پارک ایک لاکھ 23 ہزار ہیکٹر پر محیط ہے۔ جو درجنوں زمینی اور آبی رہائش گاہیں، بنیادی اور ثانوی جنگلات سمیت شاندار اور سائنسی لحاظ سے اہم غاروں سے مالا مال ہے اور اس میں دنیا کا سب سے بڑا غار سون ڈونگ بھی شامل ہے۔ مذکورہ علاقے کو دو بار عالمی قدرتی ثقافتی ورثے کے طور پر نامزد کیا جا چکا ہے۔ پہلی بار جولائی 2003ء میں، جب یونیسکو نے ارضیات اور جیومورفولوجی کے لحاظ سے اس کی غیر معمولی عالمی قدر کے لیے پارک کو تسلیم کیا جب کہ دوسری بار جولائی 2015ء میں اسے ایک بار پھر اسی اعزاز سے نوازا گیا۔