عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی، فائل فوٹو
عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی، فائل فوٹو

تحریک انصاف کا پرانا سینٹرل آفس بھی غیر قانونی تھا

علی جبران:
تحریک انصاف کو پہلی بار اپنے مرکزی دفتر سے بے دخل نہیں ہونا پڑا ہے۔ وہ ماضی میں بھی اس صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس بار غیر قانونی تعمیرات پر پی ٹی آئی کا سنٹرل آفس سیل کیا گیا۔ جبکہ اس سے قبل رہائشی علاقے میں کھولا جانے والا دفتر سیل کراکے خالی کرایا گیا تھا۔ کیونکہ ریذیڈنشنل علاقے میں کمرشل یا سیاسی دفتر بنانا غیر قانونی ہے۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع سے موصول معلومات کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ فور میں سیل ہونے والا پی ٹی آئی کا موجودہ سیاسی مرکز ساتواں سنٹرل آفس ہے۔ اس سے قبل وہ چھ مرکزی دفتر بناچکی ہے۔ جو مختلف وجوہات پر اسے خالی کرنے پڑے۔ ان میں سے دو لاہور میں تھے۔ یہ روداد بڑی دلچسپ ہے۔

واضح رہے کہ چند روز پہلے اسلام آباد میں سی ڈی اے نے تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹریٹ میں قائم غیر قانونی تعمیرات گراکر اسے سیل کردیا تھا۔ یہ دفتر وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر جی ایٹ فور کی عمارت میں تھا۔ سی ڈی اے کے مطابق مذکورہ پلاٹ سے ملحقہ اراضی پر قبضہ کرکے بڑے پیمانے پر تجاوزات قائم کی گئی تھیں۔ جبکہ بائی لاز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک اضافی منزل بھی تعمیر کی گئی۔ حسب توقع دفتر کو سیل کرنے کا معاملہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

’’امت‘‘ کو پی ٹی آئی سنٹرل آفس کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ تقریباً ایک دہائی پہلے مرکزی دفتر کے لئے یہ عمارت آٹھ کروڑ روپے میں خریدی گئی تھی۔ بعد ازاں اسے مرکزی دفتر کی شکل دینے کے لئے اس کی تزئین و آرائش پر مزید بارہ کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اس میں دفتر کے اضافی غیر قانونی فلور کی تعمیر بھی شامل ہے۔ ان ذرائع کے بقول ان بارہ کروڑ روپے میں سے بہت سا مال اس وقت کے پی ٹی آئی رہنمائوں نے اپنی جیب میں ڈال لیا تھا، جن کو عمارت مرکزی دفتر میں ڈھالنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ ان میں سے دو رہنما اب پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔ ایک نے حال ہی میں اڈیالہ جیل میں جاکر عمران خان سے ملاقات بھی کی۔ جبکہ دوسرا پریس کانفرنس کرنے کے بعد سے سیاست سے لاتعلق ہے۔ جبکہ تیسرا رہنما وہ تھا جو اس وقت پارٹی کے سارے فنڈز مینج کیا کرتا تھا۔ تاہم پی ٹی آئی ورکرز کے چندوں کے پیسوں میں سے اپنا حصہ نکالنے والے ان رہنمائوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔

پی ٹی آئی انیس سو چھیانوے سے لے کر اب تک مختلف مقامات پر سات مرکزی دفاتر کھول چکی ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی نے اپنا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس فور میں اسٹریٹ چوراسی پر ایک کرائے کے مکان نمبر دو میں کھول رکھا تھا۔ یہ دفتر بھی سیل کردیا گیا تھا۔ کیونکہ یہ رہائشی علاقے میں تھا۔ سی ڈی اے کے قوانین کے مطابق رہائشی علاقے میں کسی قسم کا کمرشل یا سیاسی دفتر کھولنا ممنوع ہے۔

فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی امریکہ میں جتنی کمپنیوں کا ذکر آیا ہے۔ تقریباً ان تمام کمپنیوں کے لئے سیکٹر جی سکس کے اسی دفتر کا ایڈریس دیا گیا تھا۔ اس غیر قانونی مرکزی دفتر سے بیدخلی کے بعد پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے کمرشل بلیو ایریا کا رخ کیا۔ جہاں سیور فوڈ کے اوپر دو فلور کرائے پر لے کر پارٹی کا مرکزی سیکریٹریٹ قائم کیا گیا۔ بلیوایریا کے مرکزی دفتر سے ہی پی ٹی آئی سیکٹر جی ایٹ فور کے موجودہ سنٹرل آفس میں منتقل ہوئی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک پارٹی کو اندرون و بیرون ملک سے اچھا خاصا ڈونیشن آنا شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ سیکٹر جی ایٹ فور میں ورکرز کے چندوں سے آٹھ کروڑ روپے کی عمارت خریدی گئی اور اس پر مزید بارہ کروڑ روپے لگائے گئے۔

پی ٹی آئی کا سب سے پہلا مرکزی دفتر لاہور میں کھولا گیا تھا۔ جو دو سو پانچ اسکاچ کارنر اپر مال کے علاقے میں تھا۔ سنٹرل سیکریٹریٹ کے لئے یہ مکان عمران خان کے ایک دوست نے دیا تھا۔ تاہم انیس سو ستانوے کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی بدترین شکست کے بعد اس نے اپنا یہ مکان خالی کرالیا تھا۔ کچھ عرصہ پی ٹی آئی بغیرمرکزی دفتر کے دربدر ہوتی رہی۔ تب نہ آج کی طرح چندہ آتا تھا اور نہ غیر ملکی فنڈنگ کا سیلاب آیا تھا۔ لہٰذا پارٹی کرائے کا دفتر لینے سے بھی قاصر تھی۔

کچھ عرصہ دربدر رہنے کے بعد پارٹی کے ایک سینئر رہنما وائس ایڈمرل (ر) جاوید اقبال نے پی ٹی آئی سنٹرل آفس کے لیے اپنا ذاتی مکان پیش کردیا۔ جو لاہور کے علاقے ظفر علی خان روڈ پر تھا۔ تاہم برے وقتوں میں کام آنے والے دیگر پارٹی رہنمائوں کی طرح وائس ایڈمرل (ر) جاوید اقبال کی قربانی بھی بھلادی گئی۔ دو ہزار بارہ میں جاوید اقبال نے عمران خان سے اپنے راستے الگ کرلئے تھے۔ پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے وائس ایڈمرل (ر) جاوید اقبال نے کہا تھا ’’پی ٹی آئی اب مشرف کے سابق ساتھیوں کا کلب بن چکی ہے۔ جس میں نظریاتی کارکنوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ میں نے دو ہزار چار میں تحریک انصاف میں شمولیت اس کے انقلابی پروگرام کی وجہ سے کی تھی۔ تاہم پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے مکمل طور پر منحرف ہوگئی۔ چنانچہ اس سے الگ ہونے کے سوا میرے پاس کوئی راستہ نہیں‘‘۔

جب عمران خان اپنی اہلیہ جمائما کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہوگئے تو پارٹی کا مرکزی دفتر بھی وفاقی دارالحکومت شفٹ کردیا گیا۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا پہلا سنٹرل آفس چھیاسٹھ بازار روڈ سیکٹر جی سکس میں کھولا گیا تھا۔ اس کے لئے ایک بیوہ کا مکان کرائے پر لیا گیا تھا۔ یہاں کافی عرصہ تک مرکزی دفتر رہا۔ جب خاتون کا انتقال ہوگیا تو ان کے ورثا نے مکان فروخت کرنے کے لئے خالی کرالیا تھا۔ ب

عد ازاں پی ٹی آئی اپنا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں لے آئی۔ اس کے لئے بھی کرائے پر عمارت لی گئی تھی۔ یہاں تقریباً ایک برس تک دفتر قائم رہا۔ جس کے بعد سیکٹر جی سکس فور اسٹریٹ چوراسی پر واقع ایک مکان میں منتقل کیا گیا۔ جو رہائشی علاقے میں دفتری سرگرمیوں پر پابندی کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ چنانچہ اسے سیل کرکے خالی کرالیا گیا تھا۔ جس کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ یہ پی ٹی آئی کا چھٹا مرکزی دفتر تھا۔ حال ہی میں سیل ہونے والا ساتواں مرکزی دفتر واحد عمارت ہے، جو پارٹی کی ذاتی ملکیت ہے۔