محمد علی:
گوشت پکانے سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھانے پینے کی مروجہ عادات سے ماحول پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ جبکہ خوراک کی تبدیلی سے گرمی میں 26 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ آسٹریلوی اور برطانوی ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کے پیکٹوں پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تناسب بھی درج کرنا چاہیے۔ تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان اشیا کی تیاری سے ماحول میں کتنی مضر گیسز شامل ہو رہی ہیں۔
آسٹریلیا کے شہر برنگرو میں قائم جارج انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اور لندن کے امپیریل کالج کی ایک مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر لوگ کھانے پینے کی چیزوں کے ملتے جلتے ماحول دوست متبادل کا استعمال شروع کر دیں تو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 26 فیصد سے زیادہ کم ہو سکتا ہے۔ تحقیق میں اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ، اگر پاستا کو گوشت کے بجائے سبزیوں کے ساتھ پکایا جائے تو کاربن گیسوں کے اخراج میں 71 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے پیکٹوں پر یہ لکھا جانا چاہیے کہ اس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کتنی کمی ہوئی ہے۔ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے کیلئے خوراک کے استعمال پر یہ پہلا ایسا تفصیلی سائنسی مطالعہ ہے۔ جس میں خوراک کی خریداری سے متعلق لوگوں کے رویوں کے ماحول پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں سُپر مارکیٹوں میں کھانے پینے کی ہزاروں اشیا کا ڈیٹا شامل ہے اور ان کی تیاری میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی مقدار بتائی گئی ہے۔
ماہرین کی ٹیم کے سربراہ ایلی سن گینز کے مطابق کاربن گیسوں کے اخراج کے اہداف حاصل کرنے کیلئے کھانے پینے کی عادات میں نمایاں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب لوگ خوراک اور کھانے پینے کی عادات کے ماحول پر مرتب اثرات سے آگاہ ہوں گے تو وہ اپنی پسند کے بہتر متبادل ڈھونڈ سکیں گے۔
اس تحقیق میں آسٹریلیا کے 7 ہزار گھرانوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کی سال بھر کی گراسری کے متوقع اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان گھرانوں کی خوراک میں شامل 22 ہزار سے زیادہ چیزوں کا ڈیٹا بھی اس تحقیق کا حصہ ہے۔ جس میں سادہ روٹی سے لے کر برگر تک شامل ہیں۔ اس بارے میں اعداد و شمار دیئے گئے ہیں کہ ان کی تیاری میں کاربن گیسوں کی کتنی مقدار خارج ہوتی ہے۔ مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ متبادل خوراک کے استعمال سے کاربن گیسوں کے اخراج میں کتنی کمی کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر گنیز کے مطابق تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم صرف خوراک تبدیل کر کے گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسوں کا اخراج بڑی حد تک روک سکتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب دوسرے ملک بھی ایسا ہی کریں۔ ڈاکٹر گنیز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہم نے اپنی تحقیق میں خوراک کے ایسے متبادل پیش کیے ہیں جو ذائقے اور غذائیت میں بہت قریب ہیں اور اس تبدیلی سے ان کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ بس صرف یہ ہو گا کہ وہ ایسی خوراک کی بجائے، جس کی تیاری میں بہت زیادہ کاربن گیسیں خارج ہوتی ہے، ایسی چیز استعمال کریں گے جسے بنانے میں کاربن گیس کم مقدار میں خارج ہوتی ہے‘۔
تحقیق میں شامل کئی اعداد و شمار بڑے دلچسپ ہیں۔ مثلاً گراسری اسٹوروں کی مجموعی خریداریوں میں گوشت کی مصنوعات کا حصہ صرف 11 فیصد ہے۔ جبکہ اس کی تیاری میں کاربن گیسوں کا اخراج کا حصہ 49 فیصد ہے۔ اسی طرح کل خریداریوں میں سبزی اور پھلوں کا حصہ تقریباً 25 فیصد ہے۔ جبکہ ان کی کاشت سے لے کر صارف کے تھیلے تک منتقل ہونے میں کاربن گیسوں کے کل اخراج میں وہ صرف 5 فی صد کے حصے دار ہیں۔