حیدرآباد: پریٹ آباد میں گیس سلنڈر دھماکےکے بعد ایل پی جی کی فروخت بند کروائے جانے کے بعد گھریلو صارفین، پکوان سینٹرز اور ہوٹلز مالکان کیلیے گیس کا حصول مشکل ترین مرحلہ بن گیا۔ کئی ہوٹلز بند ہونے لگے تو پکوان سینٹرز پر لکڑیوں کا استعمال شروع کردیا گیا ہے، گھریلو صارفین گیس کے حصول کیلیے سلنڈر اٹھائے سڑکوں پر گھومنے لگے۔ گاڑی مالکان نے قریبی شہروں کا رخ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق پریٹ آباد میں ایل پی جی دکان میں سلنڈر دھماکے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع اور زخمی ہونے کے واقعے کے بعد انتظامی سطح پر کارروائیاں شروع کرتے ہوئے ضلع کی چاروں تحصیلوںمیں گلی ومحلوں اورسڑکوں و چوراہوں پر جگہ جگہ کھلی ایل پی جی کی دکانیں تو بند کروا دی گئی ہیں لیکن روزانہ کی بنیاد پر ایل پی جی استعمال کرنے والے گھریلو و کمرشل صارفین کیلیے گیس کی فراہمی کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ اچانک دکانیں بند ہونے سے گھریلو و کمرشل صارفین کو ایل پی جی کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے شدید گرمی کے دوران بھی مختلف علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
مختلف سی این جی اسٹیشن کو تو گیس کی سپلائی جاری ہے لیکن شہر بھر میں رات10 بجے سے صبح 6 بجے تک گیس کی فراہمی مکمل طور پر بند کر دی جاتی ہے جس سے شہریوں کی اکثریت ایل پی جی سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہےں اور اب دکانیں بند ہونے سے جہاں گھریلو صارفین کو ایل پی جی کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا ہے وہیں پکوان سینٹرز اور ہوٹلز مالکان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
پکوان سینٹرز اور ہوٹلز پر بھی سلینڈر کے ذریعے کھانے کی تیاری کی جاتی ہے لیکن دکانوں کی بندش سے کئی ہوٹلز ہفتہ کے روز بند رہے جبکہ پکوان سینٹرز پر لکڑیوں کا استعمال کر کے کھانے کے آرڈر تیار کیے جا رہے ہیں۔ ہفتہ کے روز دن بھر شہریوں کی ایک بڑی تعداد گیس کے حصول کیلیے سلنڈر اٹھائے گھومتے دکھائی دییے تاہم دکانیں بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس سے خواتین کو گھروں میں کھانے کی تیاری میں بھی دشواری اٹھانی پڑی۔
واضح رہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے گیس کے نئے کنکشن پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں اور نئے تعمیر ہونے والے رہائشی پلازاﺅں یا رہائشی سوسائٹیز میں گیس کنکشن موجود نہیں جہاں عوام ایل پی جی کے ذریعے گیس استعمال کرتے ہیں۔ دوسری طرف لوکل روٹس پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں من مانا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔