ارشاد کھوکھر:
سندھ کے محکمہ خوراک کے افسران و ملازمین کی ملی بھگت سے 2022ء کے سیلاب کی آڑ میں بڑھا چڑھا کر گندم خراب ظاہر کرکے تین ارب روپے سے زائد مالیت کی خورد برد کی گئی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد مذکورہ گندم کی چوری بے نقاب ہوگئی ہے۔ وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم نے انکوائری مکمل کرکے رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کردی ہے۔ جبکہ محکمہ خوراک کی انتظامیہ نے مذکورہ رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس رپورٹ کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ گھپلا چھپانے کے لئے صاف گندم گوداموں سے نکال کر اس کی جگہ بیوپاریوں کی خراب ہونے والی گندم اونے پونے نرخوں میں خرید کے گوداموں میں رکھی گئی۔ فراڈ چھپانے کے لئے جو گندم کھانے کے قابل ہی نہیں تھی اس میں سے بڑے پیمانے پر گندم کراچی کے گوداموں میں منتقل کی گئی۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب محکمہ کے انتظامیہ کے پاس بھی نہیں ہے۔
2022ء کی طوفانی بارشوں کے باعث اندرون سندھ پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کا محکمہ خوراک کے افسران و ملازمین نے بھرپور فائدہ اٹھاکر گوداموں سے صاف ستھری گندم نکال کر بیچ کھائی۔ اور اس کی جگہ بیوپاریوں اور دیگر نجی افراد کی جو گندم خراب ہوئی تھی وہ انہوں نے ایک صاف ستھری گندم کے بدلے میں خراب گندم کی چار بوریاں لے کر گوداموں میں رکھ لیں۔ اس گھپلے کی نشاندہی اس وقت بھی میڈیا رپورٹس میں کی جارہی تھی۔ اس وقت سیکریٹری خوراک کے عہدے پر تعینات افسر راجہ خرم شہزاد عمر اور ڈائریکٹر فوڈ کے عہدے پر تعینات امداد شاہ نے دوہری پالیسی اختیار کی۔ ایک جانب وہ خود یہ بیانات دے رہے تھے کہ فوڈ انسپکٹر اور سپروائزر بڑھا چڑھاکر گندم خراب ظاہر کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر خود بھی اس عمل میں شامل تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے ڈائریکٹر فوڈ امداد شاہ کی جانب سے میڈیا سے کی گئی بات چیت اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ امداد شاہ نے کہا تھا کہ، جس طرح کا سیلاب تھا تو وہ سمجھ رہے تھے کہ گندم زیادہ خراب ہوسکتی ہے لیکن اللہ پاک کا کرم ہوا ہے کہ زیادہ گندم خراب نہیں ہوئی ہے۔ صرف ایک لاکھ 60 ہزار بوری یعنی تقریباً 16 ہزار میٹرک ٹن گندم خراب ہوئی ہے۔
لیکن بعد ازاں اگست 2023ء میں پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل سندھ کابینہ میں جب یہ معاملہ آیا تو اس میں محکمہ خوراک کے حکام نے یہ رپورٹ پیش کی کہ تقریباً چار لاکھ 65 ہزار یعنی 46 ہزار ٹن سے بھی زائد گندم خراب ہوئی ہے۔
مذکورہ گندم کے خراب ہونے کی وجوہات اور اس میں سے کتنی گندم کھانے کے قابل ہے یا نہیں اور کتنی گندم خراب ہوئی ہے؟ اس کا درست تخمینہ لگانے اور اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لئے سندھ کابینہ نے انکوائری کرانے کی منظوری دی تھی۔ مذکورہ انکوائری کمیٹی ایس اینڈ جی اے ڈی نے نوٹیفائیڈ کی ، جس کا سربراہ وزیراعلیٰ انسپکشن اینڈ ایولیشن ٹیم کے گریڈ 19 کے ممبر علی گل سنجرانی کو بنایا گیا۔ جب کہ گندم کے معیار کا اندازہ لگانے کے لئے محکمہ زراعت کے ڈی جی ایکسٹنشن سمیت دیگر ممبران بھی اس کمیٹی میں شامل تھے۔
مذکورہ کمیٹی کے سربراہ نے وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کو جو رپورٹ دی اس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ خراب گندم کے جو سیمپل لئے گئے ہیں، اس میں 2021-22 کی فصل سے پہلے کی گندم بھی شامل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری گندم خراب نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ گوداموں سے صاف ستھری گندم چوری کرکے اس کی جگہ خراب گندم کہیں اور سے لاکر رکھی گئی ہے۔ انکوائری رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ مذکورہ گندم کی چوری میں جو بھی ملازمین و افسران ملوث ہیں، ان سے رقم وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے حکام نے محکمہ خوراک کے تمام ڈپٹی ڈائریکٹرز اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو 19 اپریل کو بلایا تھا کہ وہ اس رپورٹ پر دستخط کریں اور انہیں یہ آپشن بھی دیا گیا تھا کہ اگر وہ اس رپورٹ سے متفق نہیں ہیں تو وہ اپنا اختلافی نوٹ بھی لکھ سکتے ہیں۔ لیکن محکمہ خوراک کے کسی بھی افسر نے اس رپورٹ پر دستخط نہیں کئے، جس کے بعد وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے چیئرمین نے وہ رپورٹ ایس این جی ڈی کو بھجوادی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کا سربراہ جب انکوائری کے سلسلے میں متعلقہ گوداموں اور ڈبلیو پی سیز پر گئے تو اس وقت یہ شکایات بھی مل رہی تھیں کہ فیور دینے کے لئے کئی گوداموں کے انچارج اور ڈی ایف سیز وغیرہ سے رشوت کے طور پر رقم بھی بٹوری گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ سیلاب میں خیرپور، نوشہروفیروز، قمبر شہداد کوٹ، دادو اور جامشورو اضلاع میں تھوڑی بہت گندم خراب ضرور ہوئی تھی۔ جس کی نشاندہی بھی ہونی چاہئے اور ایسا نہیں ہے کہ ساری گندم چوری ہوئی ہے۔ تاہم ملی بھگت سے سب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر ضلع قمبر شہداد کوٹ اور ضلع دادو میں خراب گندم ظاہر کی گئی۔ جس کے ذمہ دار اس وقت کے متعلقہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز شہزاد شاہانی و دیگر تھے۔ جنہیں محکمہ کے اعلیٰ انتظامی افسران کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ خوراک کی موجودہ انتظامیہ اس رپورٹ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس کی دوبارہ انکوائری ہو۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو گندم کھانے کے قابل ہی نہیں تھی، اس گندم میں سے تقریباً تین لاکھ بوری یعنی 30 ہزار میٹرک ٹن گندم قمبر شہداد کوٹ ، دادو اور دیگر اضلاع سے کراچی کے گوداموں میں منتقل کی گئی، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس خراب گندم کی ٹرانسپورٹیشن پر بھی کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب محکمہ کی انتظامیہ کے پاس بھی نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایسا اس لئے بھی کیا گیا کہ بڑھاچڑھاکر خراب دکھائی گئی گندم کے ثبوت مٹائے جائیں اور یہ طوق کسی اور کے گلے میں ڈالا جائے۔
محکمہ خوراک کی انتظامیہ نے سندھ کابینہ میں جو اعداد و شمار پیش کئے تھے، اس میں تقریباً چار لاکھ 65 ہزار بوری خراب گندم ظاہر کی گئی تھی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم نے اپنی انکوائری میں جو خراب گندم دکھائی ہے وہ تقریباً چار لاکھ بوری ہے۔ 2022ء میں محکمہ خوراک کو مذکورہ گندم کی فی بوری تقریباً سات ہزار 800 روپے میں پڑی تھی۔ اس حساب سے مذکورہ گندم کی مالیت تقریباً تین ارب 12 کروڑ روپے بنتی ہے۔ یوں تقریباً ڈیڑھ برس کے بعد انکوائری رپورٹ آنے کے باوجود بھی عملی طور پر یہ اسکینڈل اپنے انجام کو نہیں پہنچا ہے۔ کیوں کہ اس فراڈ میں ملوث افسران و ملازمین کے خلاف جب تک کارروائی نہیں ہوتی، تب تک یہ انکوائری سودمند ثابت نہیں ہوگی۔