محمد اطہر فاروقی:
بلدیہ عظمیٰ کے ماتحت چلنے والے سب سے بڑے اسپتال عباسی شہید میں 54 گھوسٹ ملازمین کا انکشاف ہوا ہے۔ ان میں پیرا میڈیکل اسٹاف، پوسٹ گریجویٹ ٹرینی اور سیکورٹی کیلئے مامور سٹی وارڈن شامل ہیں۔ جو 3 سے 5 برس سے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ اسپتال میں نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کے بعد تحقیقات کرائی گئیں تو بھانڈا پھوٹا۔
ملازمین میں سینکٹروں ایسے بھی شامل ہیں۔ جو کبھی کبھار اسپتال آتے اور اپنی حاضری لگوانے کیلئے 3 سے 5 ہزار روپے ماہانہ رشوت دے رہے تھے۔ اسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر فیصل صمدانی کے بقول گھوسٹ ملازمین کی تنخواہیں بند کرنے کیلئے محکمے کو لیٹر ارسال کیا جائے گا۔ اسپتال میں لیبارٹری کو فعال کردیا گیا ہے اور ایکو و الٹراسائونڈ مشین ٹھیک کر دی گئی ہیں۔ کئی برس سے بند آرتھو پیڈک اور آنکھوں کے آپریشن بھی شروع کیے جاچکے ہیں۔ سٹی اسکین مشین کی مرمت کی جا رہی ہے۔ جو جلد فعال ہو جائے گی۔ ماہانہ ریونیو کا 8 لاکھ سے اضافہ ہوکر 5 گنا ہوچکا ہے۔
عباسی شہید اسپتال میں ماضی میں 2 ہزار 55 سے زائد ملازمین اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ملازمین ریٹائر ہوتے گئے اور محکمے نے کئی برس سے ملازمت پر کسی کو تعینات نہیں کیا۔ اس وقت اسپتال میں تقریبا نصف ملازمین ہی رہ چکے ہیں۔ 2 ہزار 55 ملازمین میں سے 11 سو ملازمین حاضر سروس ہیں۔ جبکہ 11 سو 55 میں سے 54 ملازمین گھوسٹ ہیں۔ سینکٹروں ایسے ملازمین بھی موجود ہیں جو ایک ماہ میں 10 سے 15 دن اسپتال آ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اسپتال میں سہولیات کی شدید فقدان تھا۔
لیبارٹری میں محض یورین ڈی آر ٹیسٹ اور ایکسرے کیلئے ایک ہی مشین فعال تھی اور وہ بھی اکثر خراب رہتی تھی۔ 2024ء میں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عباسی شہید اسپتال میں نئے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیصل صمدانی کو تعینات کیا ہے۔ ’’امت‘‘ نے نئے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیصل صمدانی سے عباسی شہید اسپتال اور غیر حاضر و گھوسٹ ملازمین کے حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ ’’23 جنوری 2024ء کو عباسی شہید اسپتال میں میری پوسٹنگ کی گئی تھی۔ میئر کراچی مرتضیٰ وباب نے خصوصی ہدایت کی تھی کہ اسپتال میں ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کو ٹھیک کیا جائے اور اسپتال کو بہتر بنایا جائے۔
تعیناتی کے بعد میں نے سب سے پہلے حاضر سروس ملازمین کی فہرست منگوائی تو انکشاف ہوا کہ سینکڑوں ملازمین اپنی مرضی سے اسپتال آتے جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ ملازمین ایسے بھی تھے جو اسپتال میں آتے ہی نہیں تھے۔ جس پر میں نے فوراً بائیو میٹرک سسٹم اسپتال میں انسٹال کیا تو ملازمین کی غیر حاضری کا سارا بانڈا پھوٹ گیا۔ ان ملازمین میں پیرا میڈیکل اسٹاف، پوسٹ گریجویٹ ٹرینی اور اسپتال کی سیکورٹی پر تعینات سٹی وارڈن بھی شامل ہیں‘‘۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’اسپتال میں سہولیات کا فقدان تھا۔ اس کیلئے سب سے پہلے ہم نے کے ایم ڈی سی کی فیکلٹی سے رابطہ کیا کہ آپ اپنے کام پر توجہ دیں۔ لہذا انہوں نے توجہ دینا شروع کی۔ میری تعیناتی سے قبل لیبارٹری میں محض ایک ٹیسٹ ہوتا تھا۔ جو یورین ڈی آر تھا۔ لیکن ہم نے اب تک 40 ٹیسٹوں کی سہولیات فراہم کر دی ہیں۔ ایکسرے کی مشینیں خراب پڑی تھیں، ان میں سے 4 ٹھیک کروا دی ہیں اور مریضوں کو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ایکو مشین کو فعال کر دیا ہے۔ اینڈو اسکوپی، آنکھوں کی بینائی چیک کرنے کی مشین، موتیا کے آپریشن کیلئے کارآمد مشین، جبکہ آرتھوپیڈک کے آپریشن بھی شروع کیے جا چکے ہیں، جو کئی برس سے بند تھے۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے گائنی وارڈ اور ٹراما سینٹر کی بہتر انداز میں تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ الٹرا سائونڈ کی ایک مشین ٹراما سینٹر میں بھی لگا چکے ہیں۔ جو ابھی محض دوپہر میں فعال ہے۔ جبکہ اسے 24 گھنٹے فعال کرنے جا رہے ہیں۔ فزیو تھراپی کا شعبہ بھی جلد فعال کیا جائے گا‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں عباسی شہید اسپتال کا ماہانہ ریونیو 8 لاکھ روپے ہوتا تھا۔ جس میں گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ ماہ 40 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جس میں نصٖف سے زائد رقم لیبارٹری سے آرہی ہے۔ جہاں ہم مہنگے ٹیسٹ کم قیمت پر کرکے مریضوں کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اسپتال میں جلد ہی سٹی اسکین مشین بھی فعال کر دی جائے گی۔