عمران خان:
کراچی میں معروف این جی اوز کے تحت قائم پچیس شیلٹر ہومز کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات پچھلے چھ برس سے چل رہی ہیں۔ ان میں صارم برنی ٹرسٹ بھی شامل ہے۔ اس ٹرسٹ کے بانی صارم برنی کو تو امریکی ادارے کی رپورٹ پر دھرلیا گیا ہے۔ لیکن دیگر چوبیس این جی اوز کے سربراہان اور ذمہ داران کے خلاف تاحال کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔
’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق اگرچہ ان تمام این جی اوز کے تحت چلنے والے شیلٹر ہومز میں انتہائی خلاف قانون سرگرمیوں کے شواہد موجود ہونے کے باوجود اب تک ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا ہے۔ اس کا بنیادی سبب معاملہ عدالت میں ہونا ہے۔ ایف آئی اے ان شیلٹر ہومز کی خلاف قانون سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کے لئے متعدد سفارشات عدالت میں جمع کراچکی ہے اور اب اسے اس حوالے سے عدالت کے احکامات کا انتظار ہے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے دوران جو چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ ان میں مذکور شیلٹر ہومز میں بالخصوص لڑکیوں کے حالات انتہائی قابل رحم ہیں۔ انہیں سردیوں میں بھی ٹھنڈے فرش پر بٹھایا اور سلایا جاتا ہے۔ کئی بچیوں کی یہ المناک شکایات بھی سامنے آئیں کہ انہیں قیدیوں کی طرح باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی نجی شیلٹر ہومز کے پاس لاوارث بچے اور بیچوں کا مکمل ڈیٹا موجود نہیں۔ ان معروف این جی اوز میں صارم برنی ٹرسٹ، چھیپا فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، ایس او ایس، پناہ شیلٹر ہوم، گلز شیلٹر ہومز، دارالاطفال شیلٹر ہوم، سہارا فائونڈیشن اور دیگر شامل ہیں۔
گزشتہ روز معروف این جی او صارم برنی ٹرسٹ کے سربراہ صارم برنی کی انسانی اسمگلنگ کیس میں امریکہ سے واپسی پر ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری اور مقدمہ کے اندراج کے بعد جب ’’امت‘‘ کی جانب سے ایف آئی اے سے معلومات حاصل کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ شہر میں شیلٹرز ہومز چلانے والی این جی اوز کے حوالے سے عدالتی احکامات پر ایک بڑی انکوائری پہلے سے چل رہی ہے۔ جس میں انتہائی ہولناک صورتحال سامنے آئی ہے ۔ اس انکوائری میں معلوم ہوا ہے کہ حکومت سندھ کے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ اور چلڈرن پروٹیکشن اتھارٹی کی نااہلی کے سبب سندھ میں قائم 25 میں سے کچھ ہی این جی اوز کے شیلٹرز ہومز پورے قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم تمام ہی این جی اوز کے شیلٹرز ہومز میں موجود لاوارث اور یتیم بچے بچیوں کا ریکارڈ متعدد دہائیوں سے کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا گیا۔ بلکہ دستاویزی ریکارڈ بھی ادھورا اور مشکوک رکھا گیا۔ جس سے معاملے کی سنگینی مزید بڑھ گئی۔
قوانین کے مطابق یہ ادارے غیر قانونی طور پر شیلٹرہومز چلا رہے ہیں۔ جبکہ سوشل ویلفیئر کے حکام کی نااہلی کی وجہ سے 100 فیصد شیلٹرز ہومزکی انتظامیہ نے اپنے پاس آنے والے بچے بچیوں کی اڈاپشن اور شادیوں وغیرہ کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان معاملات کو گزشتہ کئی دہائیوں سے رجسٹرڈ پر ہی چلایا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان اداروں میں لائے جانے والے لاوارث بچے اور بچیوں کی 100 فیصد درست تعداد نہیں سامنے آسکی۔ نہ ہی ان بچیوں کی درست تعداد سامنے آسکیں۔ جن کی گزشتہ 5 سے 10 برس میں ان شیلٹرز ہومز سے شادیاں کی گئیں۔ ان تمام امور پر مانیٹرنگ رکھنے اور شیلٹرز ہومز چلانے والے اداروں کی انتظامیہ کو قوانین کا پابند بنانے کی تمام تر ذمے داری سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے حکام کی ہے۔ جس میں وہ مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ یہ بھی حکومت سندھ کے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ اور چلڈرن پروٹیکشن اتھارٹی کی ذمے داری تھی کہ وہ صوبے بھر میں لاوارث بچوں اور خواتین کو رکھنے کیلئے سرکاری سطح پر ہر علاقے میں شیلٹر ہومز کا بندوبست کرتی۔ تاہم اس نے یہ ذمے داری نجی این جی اوز پر ہی ڈالے رکھی۔
اب یہ حالت ہے کہ عدالتیں ہوں یا تھانے کسی بھی کیس میں لاوارث بچوں اور خواتین کو رکھنے کیلئے این جی اوز کے شیلٹر ہومز کے حوالے کرنے کی روایت مضبوط ہوگئی۔
’’امت‘‘ کو موصولہ معلومات کے مطابق مذکورہ انکشافات اس وقت سامنے آئے جب عدالتی احکامات پر ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کی ٹیموں نے چھیپا فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، صارم برنی ٹرسٹ، ایس او ایس، پناہ شیلٹر ہوم، گلز شیلٹر ہوم، دارالاطفال شیلٹر ہوم، سہارا فائونڈیشن سمیت 25 اداروں کے شیلٹر ہومز سے انکوائری میں مطلوبہ ریکارڈ طلب کرنے کیلئے متعدد نوٹس ارسال کیے۔ تاہم اکثر اداروں کی جانب سے ان نوٹسز کا جواب نہیں آیا۔ بعد ازاں ایف آئی اے ہیومن ٹریفکنگ سیل نے شہر کی مختلف فلاحی تنظیموں کے شیلٹرز ہومز کا ریکارڈ تحویل میں لے لیا۔ ان کارروائیوں میں ایف آئی اے حکام کی جانب سے عدالتی احکام پر مختلف شیلٹرز ہومز سے مینول اور کمپیوٹرائز 5 اور 10 سالہ ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔
گزشتہ 10 برس میں جن بچیوں کی شادیاں کی گئیں اور بے اولاد جوڑوں کو جو بچے دیئے گئے، لاوارث افراد کو سڑکوں سے اٹھا کر ایدھی سینٹر پناہ دی گئی اور داخل کرایا گیا۔ وہ لاوارث افراد جن کی طبعی یا حادثاتی موت ہوئی اور ان کی تدفین لاوارث لاشوں کے قبرستان میں ہوئی۔ یہ تمام تفصیلات اور ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق کچھ فلاحی اداروں نے کمپوٹرائز ریکارڈ دستیاب نہ ہونے کے سبب فراہمی سے ایف آئی اے حکام سے معذرت کرلی تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق اس انکوائری میں تفتیشی ٹیموں کی جانب سے فلاحی اداروں کے شیلٹرز ہومز پر کوئی چھاپہ نہیں مارا گیا۔ بلکہ ایک عدالتی حکم پر شروع کی جانے والی انکوائری میں مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کیلئے معمول کی کارروائیاں کی جاتی رہیں۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی انکوائری اس وقت شروع ہوئی جب ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں ایف آئی اے کو احکامات جاری کیے گئے کہ تمام شیلٹرز ہومز میں لائی گئی لڑکیوں اور لڑکوں کا ریکارڈ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ان شیلٹرز ہومز کی انتظامیہ کی جانب سے کتنی بچیوں کی شادیاں کی گئیں۔ ان بچیوں کے کوائف حاصل کرکے ان کے بیانات بھی قلمبند کر کے تصدیق کی جائے کہ بچیاں اپنے انہی شوہروں کے پاس موجود ہیں جن کے ساتھ ان کی شادیاں کی گئیں۔ یہ بھی تصدیق کی جائے کہ شادیاں ان کی مرضی سے ہوئیں۔ جبکہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ان شیلٹرز ہومز میں موجود ان بچوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور انہیں کیسا ماحول میسر ہے۔ مذکورہ احکامات ہائی کورٹ کی جانب سے اس وقت جاری کیے گئے جب ایک کیس میں ایک خاتون نے صارم برنی کے شیلٹر ہوم کے حوالے سے عدالت سے رجوع کیا کہ وہاں انہوں نے اپنی بچی جمع کروائی تھی۔ تاہم اب وہ واپس لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ادارہ انہیں بچی واپس نہیں کر رہا۔
اسی کیس کی سماعتوں کے دوران شیلٹرز ہومز میں موجود بچی اور بچیوں کی حالت زار کے حوالے سے مختلف رپورٹیں پیش ہوئیں۔ جن کی روشنی میں اس وقت عدالت عالیہ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں سنگل بینچ کی جانب سے محکمہ سوشل ویلفیئر اور چلڈرن پروٹیکشن اتھارٹی کے حکام کے کردار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ جن کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے لاوارث بچوں کیلئے قائم شیلٹرز ہومز کی اکثریت رجسٹریشن نہیں ہوسکی اور نہ ہی ان میں اہم ریکارڈ مرتب کرکے کمپیوٹرائزڈکیا گیا۔ انہی سماعتوں کے دوران ہائی کورٹ کی جانب سے مجسٹریٹ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ تجمل لودھی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ، چائلڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے 2 ڈپٹی ڈائریکٹرز پر مشتمل جوائنٹ انسپکشن ٹیم تشکیل دی گئی۔ جسے ہدایات جاری کی گئیں کہ تمام این جی اوز کے شیلٹر ہومز کے دورے کرکے رپورٹ مرتب کی جائے۔ جس پر کئی وزٹ کیے گئے اور ان میں ہولناک معلومات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کلفٹن میں ایک معروف ادارے کے نجی شیلٹر ہوم میں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ انہیں سردیوں میں ٹھنڈے ٹائل والے فرش پر بیٹھایا اور سلایا جاتا ہے۔ ان کے پا س رضائیاں، موزے، چپل اور دیگر ضروری سامان بھی نہیں تھا۔ جبکہ کھانا بھی معصوم بچیوں کے ننھے ہاتھوں سے پکوایا جاتا ہے۔ اس کیلئے کوئی باورچی نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح ریکارڈ میں کئی لڑکیوں کی فائلیں موجود تھیں۔ تاہم وہ شیلٹر ہوم میں نہیں تھیں۔ جن کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ اسلام آباد میں سفر پر گئی تھیں۔ انسپکشن ٹیموں کو کئی بچیوں نے بتایا کہ انہیں کمروں میں قیدیوں کی طرح باندھ کر رکھا جاتا رہا۔ کئی مقامات پر انہوں نے شکایت کی کہ انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسپکشن ٹیموں نے یہ بھی آبزرو کیا کہ لاوارثوں کے ورثا کو تلاش کرکے انہیں ملانے کا کوئی نظام موجود نہیں ۔
اسی انکوائری اور انسپکشن ٹموں کی کارروائی میں سامنے آیا کہ ایک شیلٹر ہوم میں ایک بچی کی موت ہوئی۔ جسے چھپایا گیا۔ جبکہ ایک باجی یعنی کام والی آیا ہی بچیوں کی شادی کا فیصلہ ان کی مرضی کے بغیر کرتی رہی۔ اس آیا کے سامنے کوئی انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ جس کے بعد اسی رپورٹ کی بنیاد پر تھانہ بوٹ بیسن میں پر اسرار موت کے حوالے سے مقدمہ درج کروایا گیا۔ جس کے حوالے سے عدالت نے ایس ایس پی سائوتھ اور ایس ایچ او بوٹ بیسن کو شفاف تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد عدالت کی جانب سے تمام فلاحی اداروں کے شیلٹرہومز کے دورے کرکے وہاں سے 10 سالہ ریکارڈ حاصل کرکے یہاں لائے جانے والے بچوں، شادیاں کرکے دی جانے والی بچیوں اور ماں باپ کو واپس دی جانے والے بچے بچیوں کے ڈیٹا کی چھان بین کے احکامات دیے گئے۔
جبکہ سامنے آنے والے نتائج کی رپورٹیں معزز عدالت میں پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ اسی دوران اس کیس میں ایک سماعت کے دوران ایف آئی اے کے لیگل افسر کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اس ضمن میں ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سربراہی میں تحقیقات کیلئے باقاعدہ انکوائری رجسٹرڈ کرلی گئی ۔ جس میں ممکنہ انسانی اسمگلنگ کے پہلو کی چھان بین کیلئے لاوارث بچوں کے شیلٹرز ہومز سے ریکارڈ حاصل کرکے انکوائری کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس انکوائری میں ایف آئی اے کی ٹیم نے اب تک متعدد شیلٹر ہومز میں جاکر وہاں موجود بچیوں اور بچوں سے انٹرویوز کیے۔ جبکہ ان کے بیانات بھی لئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق تمام شیلٹر ہومز کے زیادہ تر ریکارڈ کی اسکروٹنی مکمل ہوگئی ہے۔ جبکہ جن لڑکیوں کی شادیاں کی جاچکی ہیں۔ ان سے بھی رابطے کرکے ان کے بیانات لینے کا سلسلہ جاری ہے۔