امت رپورٹ:
امریکہ کے بعد بھارت سے شرمناک شکست کے بعد بابر الیون کی بے رحم سرجری کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میگا ایونٹ سے کرکٹ ٹیم کی واپسی پر پاکستان کی ناقص ترین کارکردگی کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا، جس کے بعد ذمہ دار کھلاڑیوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔ بہت سی وجوہات کا تعین پہلے ہی کرلیا گیا ہے اور کئی کھلاڑی پی سی بی کے ریڈار پر آگئے ہیں۔ اس سارے معاملے کو چیئرمین پی سی بی محسن نقوی خود دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے ہاتھوں پاکستان کی شرمناک شکست کے بعد ٹیم کی بڑی سرجری کا عندیہ چیئرمین پی سی بی نے خود بھی دیا ہے۔ نیویارک میں بھارت کے خلاف پاکستان کی شکست کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا ’’لگتا تھا کہ کرکٹ ٹیم کا چھوٹی سرجری سے کام چل جائے گا۔ آج کی انتہائی خراب کارکردگی کے بعد یقین ہوگیا ہے کہ ٹیم کو بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ پاکستانی کرکٹ اس وقت اپنی سب سے کم درجے کی پرفارمنس پر ہے‘‘۔
محسن نقوی نے یہ تو نہیں بتایا کہ ٹیم میں کس نوعیت کی بڑی سرجری کی جائے گی۔ تاہم واقفان حال کے بقول اس سرجری کے تحت ایک بار پھر بابر کی کپتانی جائے گی۔ واضح رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ دوہزار تئیس میں قومی ٹیم کی ناقص پرفارمنس کے بعد بابر اعظم نے تینوں فارمیٹس کی قیادت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ ان سے کپتانی واپس لی گئی تھی۔ مستعفی ہونا محض فیس سیونگ تھی۔ جس کے بعد شاہین آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی جبکہ شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم صرف ایک سیریز میں ناکامی کے بعد شاہین آفریدی سے کپتانی واپس لے کر دوبارہ بابر اعظم کو دیدی گئی ۔
بابر اعظم کے اس فیصلے کو متعدد سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور ماہرین کرکٹ نے غلط قرار دیا تھا۔ ان سب کا موقف تھا کہ بابر کو قیادت دوبارہ سنبھالنے کے بجائے اپنی بیٹنگ پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے تھی۔ ان کے دوبارہ کپتان بننے پر ٹیم میں گروپ بندی ہوسکتی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ آج سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی سمیت متعدد سابق کرکٹرز اور ماہرین دوٹوک کہہ رہے ہیں کہ ٹیم میں بدترین گروپ بندی ہے۔ اس کا اثر براہ راست ٹیم کی کارکردگی پر پڑ رہا ہے جو ملکی تاریخ کے سب سے نچلی درجے پر چلی گئی ہے اور متعدد سابق کرکٹرز نے تو موجودہ بابر الیون کو ہاکی کی ٹیم سے تشبیہ دینا شروع کردیا ہے۔
امریکہ کے بعد بھارت کے سامنے جس طرح منتشر قومی ٹیم بے نقاب ہوئی ہے، اس میں دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی تو اپنی جگہ خود بطور کپتان بابر اعظم کی اپنی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن تھی۔ سب توقع کر رہے تھے کہ ایک سو بیس کے مختصر ہدف کو حاصل کرنے کے لئے اسٹار کرکٹر کہلانے والے بابر اعظم فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے کم از کم ففٹی ضرور بنائیں گے۔ لیکن وہ کسی اسکول ٹیم کے بیٹر کی طرح بھمرا کی بال پر بے کسی سے آئوٹ ہوگئے اور ٹیم کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر چلے گئے۔
بعد ازاں ان کے دست راست کہلانے والے خود غرض وکٹ کیپر اوپنر محمد رضوان نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ وہ طویل وقت تک وکٹ پر ضرور ٹھہرے لیکن اس قدر سست رفتاری سے بیٹنگ کی ، گویا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ وہ چوالیس بالز پر صرف اکتیس رنز بناکر بھمرا کی گیند پر نہایت احمقانہ شاٹ لگاتے ہوئے بولڈ ہوگئے۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا، جب ہار کی طرف پاکستانی ٹیم کا سفر شروع ہوا۔ حالانکہ سست رفتاری سے بیٹنگ کرنے والے محمد رضوان کی ذمہ داری تھی کہ وہ میچ کو فنش کرنے تک وکٹ پر رکتے۔ معلوم ہوا کہ بابر اعظم سے کپتانی لینے کے ساتھ ساتھ بعض کھلاڑیوں کو آرام کرانے یا سادہ الفاظ میں ٹیم سے باہر کئے جانے کا قوی امکان ہے۔ ان میں محمد رضوان شامل ہیں۔ جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں افتخار احمد عرف چاچا، شاداب خان اور عماد وسیم سرفہرست ہیں۔
عمر رسیدہ افتخار احمد کو ٹیم میں فنشر کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ یعنی وہ آخری اوورز میں ہارڈ ہٹنگ کرکے پھنسی ہوئی ٹیم کو جیت کی طرف لے کر جائیں۔ لیکن بدقسمتی سے بابر کے قریبی دوست تصور کئے جانے والے افتخار آج تک اپنا یہ رول ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ بھارت کے خلاف میچ میں انہوں نے حدیں ہی مکا دیں۔
اسی طرح بابر کے قریبی دوستوں میں شمار ہونے والے ایک اور کھلاڑی شاداب خان بھی ایک طویل عرصے سے ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ آل رائونڈر کے طور پر انہیں ٹیم میں لیا جاتا ہے، لیکن نہ ان کی اسپن بالنگ جادودکھارہی ہے اور نہ بیٹ رنز اگل رہا ہے۔ کرکٹ ماہرین حیران ہیں کہ بھارت کے خلاف میچ میں انہیں کپتان بابر نے بالنگ ہی نہیں دی تو پھر فائنل الیون میں شامل کیوں کیا تھا۔ اس سے بہتر ایک مکمل بیٹسمین کو ٹیم میں لیا جاسکتا تھا۔ لیکن یہاں بھی دوستی کو ترجیح دی گئی۔
اب عماد وسیم کی طرف آتے ہیں۔ بھارت کے خلاف اہم میچ میں جن کا کردار سب سے زیادہ مشکوک تصور کیا جارہا ہے۔ معروف سابق ٹیسٹ کرکٹر سلیم ملک نے کہا ہے کہ، عماد وسیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ کریز پر موجود رہیں اور بالز ضائع کرکے رنز ریٹ بڑھاتے جائیں تاکہ پاکستان کو شکست کی طرف دھکیلنے میں آسانی ہوجائے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں انضمام الحق کی موجودگی میں بات کرتے ہوئے سلیم ملک کا مزید کہنا تھا ’’ہم لوگ اس طرح کے مراحل سے گزرے ہوئے ہیں۔ سادہ سا فارمولا ہے کہ جب کسی کھلاڑی سے شاٹ نہیں لگ رہا ہو تو وہ دانستہ آئوٹ ہوکر دوسرے کھلاڑیوں کو موقع دیتا ہے۔ لیکن عماد وسیم نے اس کے برخلاف کیا۔ انہوں نے رنز ریٹ بڑھانے کے لئے رسکی شاٹ کھیلنے کے بجائے گیندیں ضائع کیں اور اس کے نتیجے میں رن ریٹ مسلسل بڑھتا چلا گیا‘‘۔
واقفان حال کے بقول یہ طے ہے کہ بھارت کے خلاف عماد وسیم کی اس مشکوک حکمت عملی کی تحقیقات ضرور ہوں گی۔ یہ ضروری ہے کہ پی سی بی ایک جامع رپورٹ مرتب کرکے یہ پتا لگائے کہ عماد وسیم کس کے ایجنڈے کو پورا کر رہے تھے۔