عمران خان :
خواتین کے واٹس ایپ کو نشانہ بنانے والے سائبر کرمنل گروپوں کا سب سے بڑا مقصد عید سے قبل زیادہ سے زیادہ مالیاتی فراڈز کی وارداتیں کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے خواتین کے واٹس ایپ نمبرز کو اپنے تصرف میں کرنے کے بعد نہ صرف ان کے ذریعے خواتین کے رابطوں میں موجود افراد سے پیسے طلب کئے جاتے ہیں۔ بلکہ واٹس ایپ کے ڈیٹا میں موجود گفتگو کا ریکارڈ، تصاویر اور ویڈیوز کو استعمال کرکے تمام متعلقہ افراد کو ہراساں اور بلیک میل کرکے بھی رقوم طلب کی جاتی ہیں۔
سائبر کرائم ونگ کے مطابق گزشتہ برسوں کے ڈیٹا کے تجزیہ سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں شہریوں بالخصوص خواتین کے واٹس ایپ کو نشانہ بنانے کی وارداتوں میں عید الفطر، عید الاضحی سمیت دیگر ملکی تہواروں سے قبل اچانک کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ابتدائی طور پر سامنے آنے والی وارداتوں کی شکایات پر کی جانے والی انکوائریوں میں یہ دیکھا گیا کہ ان گروپوں میں انتہائی کم تعداد ایسے عناصر کی ہوتی ہے۔ جو صرف شہریوں کی ذاتی یا حساس معلومات کے حصول کیلئے یہ کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر ملزمان یہ وارداتیں تہواروں سے قبل زیادہ سے زیادہ رقوم بٹورنے کیلئے کرتے ہیں۔
ان وارداتوں میں سائبر کرائمز کی تمام طرح کی وارداتیں اکٹھی کی جا تی ہیں۔ یعنی فراڈ کے ذریعے شناخت چوری کرکے حساس ڈیٹا جمع کرنا اور پھر اس کو آن لائن بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ کیلئے استعمال کرکے تاوان وصول کرنا شامل ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحقیقات میں یہ تجزیہ بھی کیا گیا کہ ان گروپوں کیلئے خواتین سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں۔ جن کے واٹس ایپ کو سوشل انجینیئرنگ اور فشنگ کے ذریعے کمپرومائز کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ جبکہ خواتین کے واٹس ایپ نمبرز پر قبضہ کرنے کے بعد ان کو بلیک میل کرنا بھی زیادہ آسان ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کی اقدار کے مطابق شہری خاندان اور احباب میں موجود خواتین کی بات پر توجہ بھی زیادہ دیتے ہیں۔ اس لئے جب انہیں خواتین کے نمبرز سے پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے تو اس سے زیادہ پیسے مل جاتے ہیں۔ ان وارداتوں کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ خاندان یا حلقہ احباب میں شامل خواتین کے ڈیٹا کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے بچانے کیلئے شہری بلیک میل بھی جلدی ہوجاتے ہیں اور تاوان دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق حالیہ دنوں میں بھی شہریوں کے واٹس ایپ اکاؤنٹس ہیک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق ان واقعات میں سائبر کرمنل خواتین کے واٹس ایپ اکاؤنٹس کو خاص طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ سائبر کرمنل خواتین کے واٹس ایپ اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کی ذاتی معلومات بشمول چیٹ، تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے ان کا استحصال اور بلیک میل کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ سائبر کرمنلز واٹس ایپ اکاؤنٹس تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے کیلئے جدید طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ جن میں فشنگ اور سوشل انجینئرنگ شامل ہیں۔ فشنگ کی حکمت عملی اکثر دھوکہ دہی کے پیغامات پر مشتمل ہوتی ہے جو صارفین کو ذاتی معلومات ظاہر کرنے یا بدنیتی پر مبنی لنکس پر کلک کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ایف آئی کے مطابق سائبر حملوں میں بنیادی طور پر خواتین صارفین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس سے ان کی ذاتی معلومات، تصاویر اور گفتگو تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ پھر سائبر کرمنلز ان ہیک شدہ اکاؤنٹس کو نامناسب مواد کی اشاعت اور فراڈ کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات کر کے شہری اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ واٹس ایپ سیٹنگز میں ٹو سٹیپ ویریفکیشن کو فعال کریں۔ ٹو اسٹیپ ویریفکیشن ایک اضافی حفاظتی پرت فراہم کرتا ہے۔ جو صارفین کے اکاؤنٹ کو غیر مجاز رسائی سے بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق غیر متعلقہ یعنی اجنبی نمبرز سے بھیجے گئے پیغامات یا فوٹوز، ویڈیوز یا فائلز کو اوپن کرنے سے گریزکیا جائے۔ یہ پیغامات اکثر اسپام لنکس یا فائلوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں جو شہریوں کے موبائل فون کو نقصان یا آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے شہریوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ ذاتی معلومات تک رسائی کو محدود کرنے کیلئے اپنی واٹس ایپ پرائیویسی کی سیٹنگز کا باقاعدگی سے جائزہ لیں اور اسے اپ ڈیٹ کریں۔ اگر آپ کا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو فوری طور پر ایف آئی اے کی ہیلپ لائن 1991 پر رابطہ کریں یا قریبی ایف آئی اے سرکل کا وزٹ کریں۔ اپنے اکاؤنٹ پر کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے اور مناسب حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کرنے کیلئے واٹس ایپ ہیلپ سے رابطہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی شہری اپنے اکاؤنٹ کے ہیک ہونے کی اطلاع اپنے قریبی دوستوں، خاندان کے افراد اور اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کو دے دیں تا کہ وہ کسی بھی ممکنہ فراڈ سے بچ سکیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگز کے مطابق اس وقت ملک بھر سے بے شمار ایسی شکایات موصول ہوچکی ہیں جن میں شہریوں کے واٹس ایپ کو نشانہ بنانے کے بعد شہریوں کو صرف مالیاتی وارداتیں کی گئی ہیں۔ تاہم اکا دکا ایسے کیس بھی سامنے آرہے ہیں جن میں خواتین کو خصوصی طور پر دیگر مذموم مقاصد کے لئے ہراساں اور بلیک میل کیا گیا۔