اٹک میں دو کیسز کے بعد کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، فائل فوٹو
 اٹک میں دو کیسز کے بعد کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، فائل فوٹو

پنجاب کی مویشی منڈیوں میں کانگو وائرس کی اطلاعات

نواز طاہر:
لاہور سمیت پنجاب کی مویشی منڈیوں میں کانگو وائرس سمیت مختلف بیماریوں کی اطلاعات ہیں۔ ایسے کئی بیمار جانور فروخت بھی کیے گئے ہیں۔ تاہم محکمہ لائیو اسٹاک کانگو وائرس کی موجودگی سے انکار کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سخت اقدامات اٹھائے جانے کے نتیجے میں کانگو وائرس کا وجود نہیں۔ البتہ دیگر بیماریاں موجود ہیں۔ لیکن وہ انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرناک نہیں۔

واضح رہے کہ پنجاب بھر میں قربانی کے جانوروں میں مختلف قسم کی بیماریوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ جن میں کانگو وائرس بھی شامل ہے۔ لیکن محکمہ لائیو اسٹاک کا کہنا ہے کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق ایسا کوئی کیس تاحال رپورٹ نہیں ہوا اور محکمہ اس حوالے سے متحرک ہے۔

دوسری جانب قائم کی جانے والی مختلف منڈیوں کے ساتھ ساتھ چل پھر کر جانور فروخت کرنے والے بیوپاریوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے اکثر جانور بیمار ہیں۔ لاہور کے ایک شہری محمد سعد کے مطابق وہ تین جانور خرید کر لائے تھے۔ جن میں سے دو بیمار نکلے۔ ان کے جسم کے زیریں حصے میں کیڑے (چیچڑ) پائے گئے۔ فوری طور پر ویٹرنری ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس میں کانگو وائرس کی علامات ہیں۔ جس پر اس نے دس ہزار کم قیمت پر یہ بچھڑا بازار میں بیچ دیا اور منڈی سے دیکھ بھال کر نیا بچھڑا خریدا۔

محمد سعد کے بقول ’’بچھڑے کو بخار تھا اور جسم گرم ہونے کی نشاندہی پر بیوپاری نے بتایا تھا کہ موسمی حدت کے باعث اس کا جسم گرم ہے۔ جبکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ جانور کو بخار ہونا اور جسم پر نشان پڑنا کانگو وائرس کی اہم ترین علامت ہے‘‘۔

ادھر محکمہ لائیو اسٹاک میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے کے ایک افسر نے ’امت‘ کو بتایا کہ کانگو وائرس کی موجودگی خارج از امکان نہیں۔ لیکن جس طرح کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے نتیجے میں پنجاب میں اس کا وجود بمشکل ہے۔ البتہ دوسرے صوبوں سے لائے گئے جانوروں میں اس کا وجود ممکن ہے۔ لیکن اس کے بھی امکانات اس لئے کم ہیں کہ صوبائی اور ضلعی سرحدوں پر قائم خصوصی چیک پوسٹوں پر ان کی پڑتال ہوتی ہے اور اسپرے کیا جاتا ہے۔

کانگو وائرس کے بارے میں محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن ڈاکٹر محمد رمضان کا کہنا ہے کہ ’’پنجاب میں کانگو وائرس کے ضلع اٹک میں دو کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اس وائرس کی موجودگی کا کوئی کیس تاحال رپورٹ نہیں ہوا۔ البتہ پشاور اور بلوچستان سے آنے والے جانوروں میں یہ وائرس ہوسکتا ہے۔ لیکن اس وائرس کا شکار جانور منڈی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اب تک جتنے جانوروں کی پڑتال کی گئی ہے اور اسپرے کیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی میں بھی اس کی موجودگی نہیں پائی گئی‘‘۔ منڈیوں میں جانوروں پر چیچڑ مارنے والے اسپرے کے معیار کے بارے میں بھی شکایات وصول ہوئی ہیں۔

تاہم محکمہ کے ذرائع نے اس کی سختی سے نفی کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ڈرم پانی میں اینٹی ٹیک اسپرے ٹائیکون فین کی دس ملی لیٹر مقدار ملائی جاتی ہے۔ یہ تیز اسپرے ہے اور دیکھنے میں پانی جیسا ہی لگتا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق صرف گزشتہ روز لاہور میں چوبیس گھنٹوں کے دوران تین ہزار سات سو جانوروں کو عارضی منڈیوں میں اسپرے کیا گیا ہے۔ لاہور کے ایک ویٹرنری میڈیکل اسٹور کے مالک نے بتایا کہ ’’بیمار جانوروں کی بڑی تعداد فروخت کی جارہی ہے۔ چیک کیے جانے والے جانوروں میں بیشتر جانور زیادہ دیر تک چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں۔ انہیں ادویات دینے سے ان کی حالت سنبھلی ہے۔

جبکہ محکمہ لائیو اسٹاک کے اہلکاروں کا بھی کہنا ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے جانور منڈی میں پہنچنے تک تھک جاتے ہیں اور بیمار ہوجاتے ہیں اور اس تھکاوٹ کو کم علم لوگ کانگو وائرس کا نام دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس جانوروں کا بیوپار اورگوشت کا کاروبار کرنے والے لاہور کے شہری جگا نے بتایا کہ، انہیں بھی ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ پچھلے دنوں جو جانور بیمار ہوئے تھے۔ ان میں کانگو وائرس کی علامات پائی گئی تھیں۔