محمد نعمان اشرف:
مویشی منڈیوں کی بندر بانٹ میں بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) کو 50کروڑ روپے سے زائد کا جھٹکا لگا ہے۔ مویشی منڈی کے ٹھیکے جاری ہونے سے قبل کے ایم سی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ماضی کے مقابلے میں کم ایم سی کو نصف سے بھی کم مویشی منڈیوں کے ٹھیکے ملے ہیں۔ یوں رواں برس اسے مویشی منڈیوں سے ہونے والی آمدنی میں نمایاں خسارہ ہوا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا سب سے مہنگا 20 لاکھ روپے کا ٹھیکے کا معاملہ بھی عدالت پہنچ گیا۔ کراچی کے سب سے منافع بخش ٹھیکے ٹاؤن میونسپل کارپوریشن اور کنٹونمنٹ بورڈز کو دیئے گئے۔ میونسپل ٹیکس اور چنگی سسٹم جانوروں کی فیس سے بھی کے ایم سی کو محروم کردیا گیا ہے۔ ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز کے پاس نہ تو وٹنریری ڈیپارٹمنٹ ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ ڈاکٹرز۔ جس کی وجہ سے مویشی منڈیوں میں بیمار جانور فروخت ہونے کا خدشہ ہے۔ شہر میں 22 قانونی اور ایک ہزار سے زائد چھوٹی بڑی غیر قانونی مویشی منڈیوں سے بھی ٹاؤن اور ضلعی انتظامیہ لاکھوں روپے بٹور رہی ہے۔
قصہ اس اجمال کا کچھ یوں ہے کہ یکم جون کو کمشنر کراچی کے دفتر سے ایک لیٹر نمبر 19 جاری ہوتا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی، ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز اور دیگر اداروں کی جانب سے مختلف علاقوں میں مویشی منڈی لگانے کی اجازت طلب کی گئی ہے۔ جس پر کراچی کے علاقے کلفٹن ہائپر اسٹار بچت بازار گراؤنڈ پر کے ایم سی کو منڈی لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اسی طرح ماڑی پور اور عثمان آباد میں ٹاؤن میونسپل کارپوریشن منڈی لگانے کی اجازت ملی۔ ضلع جنوبی میں کمشنر کراچی نے محض 3 مقامات پر مویشی منڈی لگانے کی اجازت دی۔ ضلع شرقی میں احسن آباد کے علاقے میں سہراب گوٹھ ٹاؤن کو مویشی منڈی لگانے کی اجازت دی گئی۔ ضلع شرقی میں صرف ایک منڈی لگانے کی اجازت دی۔ ضلع غربی میں کے ڈی اے گراؤنڈ سرجانی ٹاؤن میں کے ایم سی کو اجازت دی گئی۔ جبکہ بکرا منڈی کی گل محمد گوٹھ سیکٹر 4 اورنگی میں ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز کو اجازت دی گئی۔
ڈسٹرکٹ سینٹرل میں نارتھ کراچی سیکٹر 11 ڈی سنڈے بازار اور لیاقت آباد 8 نمبر اور افغان گراؤنڈ پر کے ایم سی کو مویشی منڈی کی اجازت دی گئی۔ محمدی گراؤنڈ، آئی ٹی گراؤنڈ شادمان ٹاؤن میں ٹی ایم سیز کو اجازت ملی۔ ضلع ملیر میں 12 مہینے لگنے والی مویشی منڈی ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کو سونپی گئی۔ ضلع کیماڑی میں حصرت موہانی کالونی اور یوسف گوٹھ کی مویشی منڈی ٹاؤن انتظامیہ کو الاٹ کی گئی۔ جبکہ لیاری بکرا پیڑی کی مویشی منڈی کے ایم سی کے حوالے کی گئی۔
ضلع کورنگی میں انڈس اسپتال کے عقب میں، عظیم پورہ قبرستان یو سی 3 اور لانڈھی ٹاؤن 13 ہزار روڈ پر ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز کو اجازت دی گئی۔ قیوم آبادکورنگی روڈ پر کے ایم سی کو اجازت دی گئی۔ قصہ مختصر کمشنر کراچی کے دفتر سے جاری لیٹر میں شہر کے مختلف علاقوں میں 22 مویشی منڈیاں لگانے کی اجازت دی گئی۔ مذکورہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کے ایم سی کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آئی۔ کے ایم سی نے موقف اختیار کیا کہ ٹاؤن کے قیام سے قبل کے ایم سی شہر میں لگنے والی مویشی منڈیوں کی نگرانی کرتی تھی اور کے ایم سی کے پاس کنٹونمنٹ بورڈز کے علاوہ تمام مویشی منڈیوں کے ٹھیکے جاری کرنے کا اختیار تھا۔ لیکن اب کمشنر کراچی نے ہمیں اعتماد میں لیے بغیر مویشی منڈی کے ٹھیکے جاری کر دیے ہیں۔
اندرون سندھ و دیگر شہروں سے آنے والے مویشیوں کی داخلہ فیس اور ان کی نگرانی کیلئے کے ایم سی کا عملہ تعینات ہوتا تھا۔ لیکن رواں سال یہاں ابراہیم حیدری، منگھو پیر ٹاؤن اور ملیر ٹاؤن نے کے ایم سی کو کام کرنے سے روکے رکھا۔ جبکہ کئی برسوں سے کے ایم سی یہ کام کرتی آرہی ہے۔ جس سے کے ایم سی کے ریونیو کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچتا ہے۔ تاہم رواں برس ایسا نہیں ہوا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم سی کو نہ تو اس بار مہنگے ٹھیکے ملے اور نہ ہی فیس وصولی اختیار اسے دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کے ایم سی کو 50 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس سب سے منافع بخش ٹھیکہ نیوکراچی 11-D کی مویشی منڈی کا تھا جو زیڈ ایم کمپنی کو الاٹ کر دیا گیا۔ بعدازاں وہی ٹھیکہ ستار قریشی نامی شخص کو دے دیا گیا۔ جس پر پہلا الاٹی عدالت چلا گیا۔ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ نیو کراچی مویشی منڈی کا ٹھیکہ متنازع ہونے کے بعد کے ایم سی کو ریونیو میں مزید 20 لاکھ کا خسارہ ہوا۔
شہر میں اس وقت ایک ہزار سے زائد غیر قانونی مویشی منڈیاں لگی ہوئی ہیں۔ جن سے ٹاؤن میونسپل کارپوریشن، ضلعی انتظامیہ، کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈز کے کارندے بھتہ وصولی کر رہے ہیں۔ شہر میں لگنے والی مویشی منڈیاں اب سڑکوں اور پلے گراؤنڈز کے علاوہ فٹ پاتھوں پر بھی لگ رہی ہیں۔ جہاں سے متعلقہ ادارے بھتہ وصولی پر مامور ہیں۔