محکمہ کے اعلیٰ افسران کو بچانے کیلیے معاملے کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں، فائل فوٹو
محکمہ کے اعلیٰ افسران کو بچانے کیلیے معاملے کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں، فائل فوٹو

ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں ڈکیتی کا معاملہ پراسرار ہوگیا

عمران خان :
ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں کروڑوں روپے مالیت کی ڈکیتی کا معاملہ پراسرار ہوگیا۔ ایف آئی اے اسلام آباد زون کے کمرشل بینکنگ سرکل کے مال خانہ سے غیر ملکی کرنسی اور دیگر قیمتی سامان کی چوری کی واردات میں اندر سے سہولت کاری کی گئی۔ ایف آئی اے حکام کی جانب سے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ معاملہ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کی بدنامی کے علاوہ اس کی سیکیورٹی پر بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ہ

ائی سیکیورٹی عمارت میں داخل ہونے اور سامان لے کر نکلنے کیلئے خصوصی پاس جاری ہوتے ہیں۔ عمارت کے اندر اور اطراف میں چپے چیے پر ہائی ریزولوشن کیمرے نصب ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخر میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر مسروقہ سامان اور کرنسی کی مالیت 5 کروڑ روپے لگائی گئی۔

واردات کے منظر عام پر آنے کے فوری بعد ایف آئی اے حکام کی جانب سے اپنے طور پر محکمہ جاتی تحقیقات کی گئیں جس میں جائے وقوعہ پر موجود کیمروں سے بھی مدد لی گئی۔ جس میں انکشاف ہوا کہ ایف آئی اے کا برطرف ملازم ہیڈ کوارٹر میں موجود سہولت کار افسران کی مدد سے ساتھیوں کے ساتھ آیا تھا۔ اس کی نشاندہی کے بعد اس معاملے کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔

اس مقصد کیلئے آئی جی اسلام آباد آفس کے ذریعے اسلام آباد اور روالپنڈی تھانوں کی پولیس کو الرٹ کردیا گیا تھا۔ تاکہ فوری طور پر مذکورہ افراد اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات پر اسنیپ چیکنگ کرکے اور ناکے لگا کر ملزمان کو حراست میں لیا جاسکے۔ اسی دوران راولپنڈی کے تھانہ مندرہ کی پولیس کے مطابق پہلے کی گئی کارروائی میں ملوث ملزمان عبداللہ خان، مہتاب، علی اور حسن کو حراست میں لے کر اپنی تفیش کاآغاز کیا گیا۔ جس میں پولیس کو ایف آئی اے کی جانب سے تکنیکی معاونت حاصل رہی۔

اس کے فوری بعد دوسری کارروائی میں مندرہ ٹول پلازہ کے قریب سے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد سی بی سی دفتر سے چوی کیا گیا سامان برآمد کرنے کے ساتھ ہی 3 ملزمان کو بھی حراست میں لیا گیا۔ تھانہ مندرہ پولیس کے مطابق ملزمان کو ٹول پلازہ پر رکنے کا اشارہ کیا۔ بھاگنے پر تعاقب کرکے ایل آر بی ٹی اسپتال کے قریب پکڑ لیا گیا۔ گاڑی کی تلاشی لینے پر ایف آئی اے تھانہ سی بی سی دفتر سیکٹر جی 13 سے چوری کیے گئے مال مقدمات کے 7 پارسلز، موبائل فونز، وائرلیس سیٹ، گاڑی کی جعلی نمبر پلیٹس، سروس کارڈز، ایئرپورٹ پر داخلہ کا عارضی پرمٹ، قومی شناختی کارڈز، اے ٹی ایم کارڈز، موبائل سمز، ماسک، افغان سیٹیزن کارڈ اور ترکش کارڈ برآمد کرلئے۔

ابتدائی تفتیش کے دوران گرفتار ملزمان سعد انور اور محمد حمزہ نے اعتراف کیا کہ برآمد سامان ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز تھانہ کارپوریٹ بینکنگ سرکل سیکٹر جی 13 سے چوری کیا گیا۔ جس میں عبداللہ خان، مہتاب، علی اور حسن بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ پولیس کے مطابق گرفتار ایک ملزم ایف آئی اے سے جبری طور پر برطرف کیا گیا تھا۔ جبکہ 4 دیگر ساتھی ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ ایف آئی اے کے چوری ہونے والے مال مقدمات کی برآمدگی کے حوالے سے ایف آئی اے حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔

ذرائع کے بقول ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے سی بی سی کے مال خانہ سے کروڑوں روپے کی چوری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ اب اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ ادارے کے ملازمین نے 11 رکنی گروہ کے ساتھ مل کر چوری کی۔ حکام نے بتایا کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق محرر مال خانہ اس واردات کا مرکزی ملزم ثابت ہو رہا ہے جو اپنے گروہ کے ساتھ غیرملکی کرنسی کے تھیلے چوری کر کے فرار ہوگیا۔

ایف آئی اے کے مطابق محکمہ جاتی کارروائی میں پولیس کے ساتھ مل کر اب تک 10 افراد کو گرفتار کرکے 6 کروڑ روپے برامد کرلئے گئے ہیں۔ دوسری جانب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مال خانہ سے لگ بھگ 10 کروڑ کی چوری ہوئی۔ جبکہ چوری شدہ رقم کی اصل مالیت جاننے کیلئے آڈٹ بھی شروع کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول اس پورے معاملے میں پر اسراریت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ ایک جانب واردات میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کرکے رقم اور سامان بر آمد کرنے کی کارروائی خاموشی سے کی جا رہی ہے اور اس پر اب تک کوئی آفیشل بیان نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب یہ بھی سوال ہے کہ یہ سامان اتنی سکیورٹی میں بغیر پاس کے باہر کیسے نکالا گیا۔ اس پر پوری عمارت کی سیکورٹی کے ذمہ داروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی سامنے نہیں آسکی۔ ذرائع کے بقول مذکورہ غیر ملکی اور ملکی کرنسی اور دیگر سامان حوالہ ہنڈی میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائیوں میں ضبط کی جاتی ہے۔ جو قواعد کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لاکرز میں رکھی جاتی ہے۔ تاہم کسی سرکاری کام کیلئے یہ سامان دفتر میں عارضی طور پر رکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ اس معاملے میں یوں لگتا ہے کہ متعدد انکوائریوں اور کیسوں کی پراپرٹی یہاں موجود تھی۔ جس پر علیحدہ سے انکوائری ہونی ضروری ہے۔

ذرائع کے مطابق اس واردات میں صرف ایک محرر اور سابق ملازم کو مرکزی ملزم قرار دینا قبل از وقت ہے۔ کیونکہ افسران بالا کی سہولت کاری کے بغیر یہ واردات مشکل تھی۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ کسی کو بچانے اور بہت کچھ چھپانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ماضی میں ایسے واقعات کے بعد سرکل انچارج اور متعلقہ کیسوں کے تفتیشی افسران کو بھی شامل تفتیش کیا جاتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اصل حقائق تحقیقات مکمل ہونے پر ہی سامنے آسکیں گے۔