نواز طاہر :
کسان تنظیموں نے پنجاب کے بجٹ میں ’کسان کارڈ‘ سمیت کسانوں کیلئے مختص دیگر پیکج مسترد کر دیئے ہیں اور احتجاجی لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کری ہیں۔ کسان رہنمائوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ آئندہ سال گندم کی کاشت میں پچاس فیصد کمی کریں گے۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے نئے بجٹ میں کاشت کاروں کے بہبودی پروگرام کے تحت زرعی آلات کیلئے چھبیس ارب، زراعت کے لیے چونسٹھ ارب 60 ساٹھ کروڑ روپے اور پنجاب ’کسان کارڈ‘ کے لیے پچھتر ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کسان تنظیموں نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے کاشت کاروں کو بُری طرح سے مایوس کیا ہے۔
اس ضمن میں کسان اتحاد کے مرکزی صدر میاں عمیر مسعود اور چیئرمین چودھری خالد باٹھ کا کہنا تھا کہ حکومت، زراعت اور خاص طور پر کسان کو تباہ برباد کرنا چاہتی ہے۔ کاشت کار واحد طبقہ ہے جو اپنے ساتھ پورے ملک کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ لیکن حکومت اسے مسلسل دبا رہی ہے ۔
گندم نہ خریدنے کے بعد پنجاب حکومت نے مختلف مواقع پر یقین دہانی کرائی تھی کہ کسان کیلئے مراعات کا اعلان کیاجائے گا۔ اس کے مطابق نہیں کیا گیا بلکہ الٹا مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں اقدامات تجویز کیے ہیں، ان کے مطابق پیدواری مراحل مزید مہنگے ہوجائیں گے اور کسان کی قوتِ خرید سے باہر ہوجائیں گے۔ ابھی ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیوب ویل کے لئے بجلی کا ریٹ کم کیا جائے، یا کسانوں کو سولر فراہم کیا جائے۔ جس طرح شوگر ملوں کو ایکسپورٹ کیلئے سبسڈی دی جاتی ہے، اسی طرح فصلوں کی ایکسپورٹ کے لئے رقم مختص کی جائے۔
علاوہ ازیں بلوچستان کے کسانوں کیلئے اسپیشل ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے۔ صنعتوں کیلئے بجلی کے ریٹ میں کمی خوش آئند ہے، اس سے انڈسٹری کو پھلنے پھولنے کے مواقع میں معاونت ہوگی۔ لیکن زراعت اور کاشت کار کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں۔ گیارہ بارہ افراد پر مشمل شوگر مافیا کے دبائو پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن حکومت نے کسان سے گندم خریدکر ایکسپورٹ نہیں کی۔ جبکہ کسان گیارہ شوگر کنگز سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایکسپور ٹ ہونے سے چینی کی کمیابی ہوگی اور ریٹ بڑھ جائیں گے۔
اس کے برعکس گندم کی تین ہزار نو سو روپے کی قیمت بھی نہیں دی گئی اور کسانوں نے خون کے آنسو روتے ہوئے دو ہزار روپے فی من تک گندم بیچی ہے۔ ایک سوال کے جواب کسان اتحاد کے چیئرمین نے کہا کہ پنجاب حکومت نے جن مراعات کا اعلان کیا ہے ان کا کاشت کار کو کوئی فائدہ نہیں، بلکہ الٹا کاشت کار پھنس جائیں گے۔ سات آٹھ ایکڑ پر کاشت کرنے والا کسان ٹریکٹر خریدنے اور اسے رکھنے کی سکت نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے مہنگے زرعی آلات کی ضرورت ہے۔
کسان کارڈ میں صرف چھ ماہ کے لئے قرض بلا سود ہے۔ لیکن جب یہ قرض ملے گا تو اس وقت کونسی فصل بونے کا وقت ہوگا؟ اس قرض میں بھی یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ صرف وہی کاشت کار قرض حاصل کرسکتے ہیں جنہوں نے بینک سے قرض نہیں لے رکھا۔ جبکہ کاشت کار کا بینک سے قرض لئے بغیرگزراہ ہی نہیں۔ جن کسانوں نے گندم کے لئے بینکوں سے قرض لیا تھا وہ تو گندم نہ خریدے جانے کی وجہ سے قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ وہ قرض ادا نہیں کرسکتے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ ’کسان کارڈ‘ سے قرض نہیں لے سکتے اور جو قرض حاصل کریں گے وہ چھ ماہ میں لوٹانا لازم ہے۔
جبکہ ایسا ممکن نہیں ہے، جو کوئی قرض لے گا اس کی فصل کا حشر بھی حکومت گندم جیسا کرے تو چھ ماہ کے بعد عدم ادائیگی کی صورت میں مارکیٹ ریٹ پر اس قرض پر سود وصول کیا جائے گا اور زمینیں نیلام کی جائیں گی۔ اس کے برعکس ہم توقع کررہے تھے کہ ’کسان کارڈ‘ سے کاشت کار کو بیس بائیس ہزار روپے فی ایکڑ مالی معاونت میں فراہم کی جائے گی۔ اس کے بجائے کاشت کار کو ساہوکارانہ انداز میں پھانسنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اگر ’کسان کارڈ‘ سے ایسی سخت شرائط کا قرض لینا ہے تو اس کے مقابلے میں آڑھتی کا قرض زیادہ آسان اور بہتر ہے۔ چنانچہ ہم ’کسان کارڈ‘ سمیت تمام پیکج مسترد کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں خالد باٹھ نے گندم کی خریداری میں کرپشن کی نفی کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومتوں میں گندم کی خریداری کی جاتی رہی تو کیا وہ دونوں یا دوسرے وزرائے اعلیٰ بھی کرپشن کرتے رہے ہیں؟ جبکہ گندم کی سرکاری خریداری کا نظام تو نوازشریف اور شہباز شریف کے حکمران بننے سے پہلے سے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیدواری مداخل سستے کرنے کے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ان مداخل کی بلیک مارکیٹنگ ختم کرنے میں تو حکومت کوئی کردار ادا نہیں کر پاتی۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے حقوق کیلئے اقتدار سے باہر کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں سے رابطے کریں گے اور احتجاج کریں گے۔ اگر حکومت ہمیں گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کرلے۔ ہم لانگ مارچ کریں گے جس کیلئے تمام طبقات کو آن بورڈ لیا جائے گا۔
اگلے سال کاشت کار گندم کی کاشت پچاس فیصد کم کرے گا تو پھر حکومت کو گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ خالد باٹھ نے بتایا کہ اگر کاشت کار ایک سال ایک فصل خاص طور پر گندم کا شت نہیں کرے گا تو وہ خود تو سسک سسک کر ایک سال گزارا کرلے گا اور ڈوبے گا نہیں، مگر ملک ڈوب جائے گا اور یہی ایک بات ہے جس سے زمین کے ساتھ جڑا ہوا کاشت کار جذباتی طور پر بلیک میل ہوجاتا ہے۔ جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ مقامی پیداوار کا متاثر کرکے گندم سمیت ہر چیز درآمد کی جائے اور خاص طبقے اور افراد کو نوازا جائے۔