سیاہ رنگ پھیر کر گیلی لکڑی بھی کوئلے کے نام پر بیچی جارہی ہے، فائل فوٹو
 سیاہ رنگ پھیر کر گیلی لکڑی بھی کوئلے کے نام پر بیچی جارہی ہے، فائل فوٹو

کوئلہ فروشوں کی بھی چاندی ہوگئی

حسام فاروقی:
عید سے قبل ہی کراچی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو ٹن سے زائد کوئلہ فروخت کیا جا چکا ہے جس کی قیمت 24 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔ جبکہ 8 سو ٹن کوئلہ اب بھی کراچی میں فروخت کے لئے موجود ہے جو عید کے دنوں میں دگنی قیمت پر فروخت کیا جائے گا۔ زیادہ تر کوئلہ اندرون سندھ اور بلوچستان سے کراچی لایا جاتا ہے۔

’’امت‘‘ کی جانب سے نیو کراچی، طاہر ولا اور سولجر بازارکے علاقوں میں سروے کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو ٹن کوئلہ عید سے قبل ہی کراچی کے شہری خرید چکے ہیں اور اب بھی کراچی میں فروخت کے لئے 8 سو ٹن کوئلہ موجود ہے۔ اب تک جو کوئلہ کراچی میں فروخت کیا جاچکا ہے اس کی مجموعی قیمت 24 کروڑ روپے بنتی ہے۔

کراچی میں اس وقت کوئلے کی فی کلو قیمت 75 روپے ہے۔ جبکہ کوئلے کی ہول سیل قیمت خرید 60 روپے ہے۔ یوں فی کلو کوئلے پر 15روپے منافع دکانداروں کو حاصل ہو رہا ہے۔ کوئلہ فروخت کرنے والے دکانداروں کا کہنا تھا کہ ہم لوگ 40 کلو کی ایک بوری یعنی ایک من کوئلہ60 روپے کلو کے حساب سے کوئلے کے بڑے ڈیلروں سے خریدتے ہیں، جس میں تین کلو کے وزن کی بوری بھی شامل ہوتی ہے۔ بوری سے نکال کر اگر کوئلے کا وزن کیا جائے تو وہ 37 کلو بنتا ہے۔ اگر اتنی محنت کے بعد بھی ہم ایک کلو کوئلے پر 15روپے منافع حاصل نہ کریں تو پھر یہ کاروبار کرنے کا ہمیں کیا فائدہ۔ اور کوئلے کی فروخت کا بھرپور سیزن بھی صرف عید کے دنوں میں ہی آتا ہے۔ جو عید قرباں کے بعد صرف ایک ماہ ہی رہتا ہے۔

کوئلے کے ایک ڈیلر بوستان نے بتایا کہ ہم کوئلہ عید آنے سے ایک ماہ قبل ہے منگا کر ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ مگر حکومت اس جانب توجہ نہیں دیتی ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کراچی میں کچھ گنے چنے لوگ ہی کوئلے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ پہلے اس کام میں ہر قومیت کے افراد شامل تھے۔ مگر اب اس کاروبار میں زیادہ تر پختون افراد ہی باقی بچے ہیں۔ اس کاروبار سے کنارہ کشی کی اہم وجہ اس کاروبار کو صنعت کا درجہ نہ دینا اور بے حد ٹیکس کی مد میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی لوٹ مار شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک کوئلے کا ٹرک منگانے پر ہمیں کئی جگہ پولیس کو بھی بھتہ دینا پڑتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت کراچی میں کوئلہ بلوچستان کے شہروں پسنی، گوادر یا سندھ کے شہروںگھارو، بدین، ٹھٹہ یا ان شہروں سے آرہا ہے جہاں اینٹیں تیار کرنے کے بھٹے لگے ہیں۔ وہاں اینٹیں پکانے کے لئے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں جو بعد میں کوئلہ بن جاتی ہیں اور پھر وہ کوئلہ منڈی میں فروخت کیا جاتا ہے۔ کراچی میں اس وقت دو طرح کا کوئلہ فروخت کیا جا رہا ہے ، جس میں ایک کوئلے کی قیمت 75 روپے کلو اور دوسرے کوئلے کی قیمت 55 روپے کلو ہے۔ 75 روپے کلو فروخت ہونے والا کوئلہ اصل لکڑی کا جلا ہوا کوئلہ ہے جبکہ55 روپے کلو فروخت ہونے والا کوئلہ گیلی لکڑی ہے، جس کو کالا رنگ کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔

اصل کوئلے کی پہچان بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اصل کوئلے کو اگر زمین پر پھینکا جائے تو وہ ٹوٹ جاتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس چالیس روپے فروخت ہونے والا کوئلہ زمین پر پھینکنے سے ٹوٹتا نہیں ہے۔ دونوں کوئلوں کے جلنے میں بھی بہت فرق ہے۔ اعلی قسم کا کوئلہ ایک تو جلد آگ پکڑ لیتا ہے اور جلتے وقت چنگاریاں نہیں نکلتیں۔ جبکہ چالیس روپے فروخت ہونے والا کوئلہ آگ جلدی نہیں پکڑتا اور اگر جل بھی جائے تو اتنی چنگاریاں نکلتی ہیں اس سے کے قریب موجود شخص کے جسم کے حصے اور کپڑے اس کوئلے سے نکلنے والی چنگاریوں سے جل جاتے ہیں۔

ایک اور دکان دارصدیق کا کہنا تھا کہ اس بار کوئلہ اس لئے بھی زیادہ فروخت ہو رہا ہے۔ کیونکہ پہلے لوگ صرف کوئلے کا استعمال عید کے موقع پر قربانی کے گوشت کو سینکنے کے لئے کرتے تھے۔ مگر اب کراچی میں مختلف اقسام کے کوئلے کے نام سے کھانے متعارف ہوگئے ہیں جن میں کوئلہ کڑاھی، کوئلہ چائے، کوئلہ ہانڈی اور کوئلہ بریانی شامل ہے۔ اسی وجہ سے کراچی میں کوئلہ عید سے قبل ہی بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہا ہے۔

کراچی میں زیادہ تر مقامات پر کوئلہ 55 اور 75 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے جس میں سرجانی ، نیو کراچی، نارتھ کراچی، لانڈھی ، کورنگی ، ملیر، شاہ فیصل کالونی ، اورنگی، گلستان جوہر، سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ مگر کچھ علاقے کراچی کے ایسے بھی ہیں جہاں کوئلہ 100 روپے سے 110 روپے کلو بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔ ان میں گلشن اقبال کے علاقے ، بہادر آباد، پی ای سی ایچ ایس کے بلاک 2 اور 6، کلفٹن ، ڈیفنس ، اور دھورا جی کے علاقے شامل ہیں۔ دکانداروں کا مزید کہنا تھا کہ ابھی جس قیمت پر کوئلہ فروخت کیا جا رہا ہے عید کے بعد کوئلہ اس سے کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کیا جائے گا۔ جس کی وجہ کوئلے کی زیادہ طلب ہوگی اور اس وجہ سے ہی ہمیں کوئلے کی قیمت بڑھانی پڑے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ عید کے ایک ماہ بعد تک کراچی میں گوشت سینکنے کے لئے انگیٹھی کا کاروبار بھی عروج پر رہتا ہے۔ اس وقت کراچی میں دو طرح کی انگیٹھیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔ ایک وہ ہیں جنہیں ٹین کی چادروں سے تیار کیا گیا ہے، ان کا معیار بہتر نہیں ہے اور وہ ایک دو بار استعمال کے بعد خراب ہو جاتی ہے۔ اس وقت کراچی میں سب سے زیادہ لوہے کی چادر کی بنی انگیٹھیاں فروخت کی جا رہی ہیں، جن کی قیمت تول کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ لوہے کی چادر والی 7 سو روپے کلو اور ٹین کی چادر سے بنی انگیٹھی 5 سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔