عمران خان :
ملک بھر میں عید قرباں کے لیے لگنے والی مویشی منڈیوں کو کھربوں روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے کا ذریعہ بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اہم ذرائع کے بقول ہر سال کی طرح رواں برس بھی مویشی منڈیوں میں مقدس فریضہ کی آڑ میں بھاری مالیت میںکالا دھن سفید کیا گیا۔ جب کہ ایف بی آر منڈیوں میں ہونے والے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں مکمل طور پر غیر سنجیدہ اور ناکام ہے۔
عید قرباں کے موقع پر مویشی منڈیوں میں ہونے والے کاروبار کو منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ کراچی میں لگنے والی ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سے تقریباً 15 برس قبل شروع ہوا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، روالپنڈی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور حیدرآبادسمیت ملک بھر میں لگنے والی مویشی منڈیوں تک پھیل گیا۔
اس ضمن میں اہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بعض مخصوص گروپ جن میں سیاست دانوں، سرکاری افسران اور تاجروں کے فرنٹ مین شامل ہوتے ہیں، اربوں روپے کا کیش چھپائے ہر سال مویشی منڈیاں لگنے کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ یہاں ہونے والے کاروبار میں اس پیسے کو شامل کرکے سفید کرنے کے بعد بینک اکائونٹس میں منتقل کیا جاسکے۔ اب تو یہ حال ہوچکا ہے کہ ملک کے نامی گرامی تاجر اور کمپنی مالکان بھی اپنی نام نہاد کیٹل فارمز کمپنیاں قائم کرکے اس دھندے کا حصہ بن چکے ہیں اور فینسی جانوروں کو ملک کے مختلف حصوں میں پال کر منڈیوں میں فروخت کرنے کی آڑ میں کھلے عام منی لانڈرنگ کر رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک سے منسلک بڑے بیوپاریوں اور بروکرز نے 15 برس قبل ماضی میں سپر ہائی وے پر کئی دھائیوں تک لگنے والی ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سے یہ سلسلہ شروع کیا۔ مذکورہ دھندے کے لئے ابتدائی طور پر بڑی لگژری گاڑیوں میں نقد رقوم کے بورے اور بریف کیس بھر کر لائے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ تمام دھندہ صرف زبان کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اس کسی قسم کی لکھت پڑھت یا دستاویز نہیں بنائی جاتیں، تاکہ کسی قسم کے ثبوت نہ بن سکیں۔ چناں چہ ابتدائی طور پر نقد رقوم کے بریف کیس لانے والے منڈی میں قائم ہونے والی مساجد میں بیٹھ کر لین دین کے سودے طے کرتے ہیں۔ تاکہ فریقین اپنے معاہدوں سے مکر نہ سکیں اور لین دین ’’شفاف‘‘ انداز میں انجام پاسکے۔
ذرائع کے بقول اس منی لانڈرنگ کے لئے جن لوگوں کے پاس ناجائز ذرائع بشمول اسمگلنگ، ٹیکس چوری، کرپشن اور دیگر ذرائع سے کمایا گیا کروڑوں روپے کا کالا دھن ہوتا ہے، وہ فرنٹ مین کے ذریعے اس میں چند شراکت دار ملا کر کچھ سرمایہ مویشی منڈی میں لگا دیتے ہیں۔ اس کے لئے مویشی منڈی میں اندرون ملک سے لائے جانے والے جانوروں کا سودا منڈی سے باہر ٹرکوں میں ہی کردیا جاتا ہے، جس میں جانوروں کے مالکان کو فی جانور ایک مناسب قیمت ادا کردی جاتی ہے۔
اس طرح مویشی مالکان پورا مہینہ منڈی میں خوار ہونے اور پلاٹ سمیت انٹری فیس اور چارے، پانی کے اخراجات سے بچنے کے علاوہ گاہکوں سے سودے بازی کے جھنجھٹ سے بھی بچ جاتے ہیں۔ ادھر منی لانڈرنگ کرنے والے لوگ یہ مویشی خرید کر منڈی میں کھڑے کردیتے ہیں جس کے بعد اپنے کارندوں کے ذریعے پورا مہینہ ان کو فروخت کرنے کے بعد اپنی مرضی کی رسیدیں وغیرہ بنا کر اپنے کالے دھن کو بھی جانوروں کی فروخت کے منافع میں شامل کرکے سفید کرلیتے ہیں۔ پھر یہ سارا پیسہ قربانی کے جانور فروخت کرنے کا منافع ظاہر کرکے بینک اکائونٹس میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔
ذرائع کے بقول دوسرے طریقے میں منڈیوں میں پلاٹ حاصل کرکے جانور کھڑے کرنے والے مالکان سے اوسط قیمتوں میں جانور خرید کر ان افراد کو چلتا کردیا جاتا ہے اور نام نہاد کمپنی کے نام پر ان جانوروں کو بیچنے کے بعد اپنی مرضی کی ریسیدوں کا ریکارڈ مرتب کرکے کروڑوں روپے کی بلیک منی وائٹ کرلی جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں موجود نظام بھی ان منی لانڈرنگ کرنے والوں کے لئے فائدہ مند ہے، جس میں جانور بیچنے والے اور فروخت کرنے والوں کے لئے سرکاری سطح پر کوئی نرخ متعین نہیں۔
مثال کے طور پر چار سے پانچ من کا جانور کوئی بیوپاری 2 لاکھ روپے میں بھی فروخت کرسکتا ہے اور کوئی بیوپاری اسے 10 لاکھ روپے میں بھی فروخت کرسکتا ہے۔ یہی صورت حال خریدنے والوں کی ہے۔ جبکہ یہ سودے 99 فیصد کیش میں ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کاروبار کبھی بھی قواعد و ضوابط میں نہیں لایا جاسکا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے بھی اس ضمن میں سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ایف بی آر حکام اور اسٹیٹ بینک حکام نے ہر سال ہونے والے کھربوں کے اس دھندے کی جانب کبھی توجہ ہی نہیں دی، تو غلط نہ ہوگا۔
ذرائع کے بقول سالانہ مویشی منڈیوں میں کالے دھن کو سفید کرنا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ اب پرانے مخصوص گروپوں کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے بیوپاریوں نے بھی یہ کام شروع کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں عید قرباں سے قبل لگنے والی درجنوں بڑی مویشی منڈیوں میں زمین، پانی، چارے، دکانوں اور ٹینٹ سمیت دیگر قسم کے ٹھیکے لینے والے ہر سال نام نہاد کمپنیاں بنا کر کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم ٹیکس کی مد میں یہ ایک روپیہ بھی جمع نہیں کرواتے۔ اسی طرح منڈیوں کے انتظامات کا ٹھیکہ لینے والے جو ہر پلاٹ اور ہر جانور پر رقوم وصول کرتے ہیں، ہر عیدِ قرباں پر کروڑوں روپے بٹور کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ معاملات کئی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے اعلیٰ حکام تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم اس کے باجود اب تک اس معاملے پر حکومتی سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نیٹ ورک میں بعض با اثر سیاست دان، بیوروکریٹس، سرکاری افسران اور کئی معروف تاجر شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معلومات ہونے کے باجود مسلسل اس ’’سسٹم ‘‘ کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔