امت رپورٹ :
پاکستان کے لئے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیے جانے والے سی پیک کو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی حکومت نے پہنچایا۔ اب ایک بار پھر پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم پاک چین تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لئے ریاست مخالف مہم چلا رہے ہیں اور ایک غیر اہم امریکی جریدے کی رپورٹ کو بنیاد بناکر وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم اس پروپیگنڈے کے غبارے سے چین کے سرکاری موقف نے ہوا نکال دی ہے۔
سی پیک کو پٹری سے اتارنے کا کھیل پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی شروع کر دیا تھا۔ جب پی ٹی آئی کے دھرنے کے سبب چین کے صدر شی جن پنگ کو اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں سی پیک میں ایک برس کی تاخیر ہوئی۔ بعد ازاں عمران خان نے اقتدار میں آکر اس اہم منصوبے پر عمل روک دیا تھا۔ جو ایک عالمی ایجنڈا ہے۔ اس منصوبے کو متاثر کرنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت کے وفاقی وزیر عبدالرزاق دائود نے پہل کی تھی اور یہ بیان دیا کہ ’’سی پیک کو ایک برس کے لئے روک دینا چاہیے‘‘۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے پورے دور حکومت میں سی پیک پر عملدرآمد رکا رہا۔ نون لیگ کے دور حکومت میں سی پیک کا پہلا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔ جس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہونا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس کی نوبت نہیں آنے دی۔ یہ سب کچھ چین کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کس طرح عمران خان کی حکومت سی پیک میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ لیکن چینیوں کی عادت ہے کہ وہ دوست ممالک سے اپنی شکایات کو عوامی سطح یا میڈیا پر بیان نہیں کرتے۔ تاہم ان دنوں ایک سیمینار میں چند لوگوں سے اس وقت کے چینی سفیر نے آف دی ریکارڈ یہ شکوہ برملا کیا تھا۔ اس سیمینار میں شریک ایک اہم تجزیہ کار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چینی سفیر نے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت سی پیک کو آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہے۔
سی پیک پر گہری نظر رکھنے والے دفاعی و سیاسی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’اگر پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سی پیک کا دوسرا فیز مکمل ہوجاتا تو اب ہم فیز تھری کی طرف جارہے ہوتے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے تین چار برس ضائع کر دیئے۔ اس سے پہلے بھی ایک برس کی تاخیر ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے یہ بھی کیا کہ سی پیک کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان جو بھی سیکرٹ معاملات طے ہوئے تھے۔ وہ سب آئی ایم ایف کے حوالے کردیئے۔ چین سے سی پیک کے لئے مجموعی طور پر کتنا پیسہ ملا، کتنا واپس دینا ہے، کتنا پیسہ پروجیکٹ کے کس حصے پر لگایا جائے گا، اس سمیت تمام معاملات کا ڈیٹا جو دونوں ممالک کے مابین رہنا چاہیے تھا، آئی ایم ایف کو دے دیا گیا۔ اس پر چین بہت ناراض ہوا تھا‘‘۔
ایک اور سوال پر آصف ہارون کا کہنا تھا ’’پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم ایک بے بنیاد رپورٹ پر وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ناکام بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ چینی وزارت خارجہ کے بیان نے پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے والے پی ٹی آئی کے ولاگرز نے چند ہزار ڈالر ضرور کمالئے اور امریکہ سے بھی انہیں کچھ پیسے مل گئے ہوں گے۔ جہاں تک وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کا تعلق ہے تو وہ انتہائی کامیاب رہا۔
سی پیک کی اپ گریڈیشن کی بات دونوں ممالک کے مابین طے ہوچکی ہے۔ دوسرا فیز شروع کرنے کی تیاریاں ہیں۔ یہ سلسلہ جلد شروع ہونے والا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر تمام معاملات طے ہوئے ہیں۔ واویلا کیا جارہا ہے کہ محض مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں، معاہدے نہیں ہوئے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرنے والا ملک چین ہے۔ جو ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے کام آیا ہے اور کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ لہٰذا یہ مفاہمت کی یادداشتیں ایک طرح سے معاہدے ہیں۔ اگر انیس سو پینسٹھ سے پاکستان کے لئے چین کے رول کا جائزہ لیا جائے تو پہلے اس آزمودہ دوست نے دفاعی طور پر پاکستان کو مضبوط بنانے میں تعاون کیا اور وہ معاشی طور پر بھی پاکستان کو مضبوط بنانے پر عمل پیرا ہے‘‘۔
پی ٹی آئی اور اس کے سپورٹرز جس بے بنیاد رپورٹ کو بنیاد بناکر وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کو ناکام قرار دینے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ معاشی تنگی کے باعث اس جریدے ڈپلومیٹ کا پرنٹ ایڈیشن کب کا بند ہوچکا ہے۔ اب یہ آن لائن چلایا جارہا ہے۔ تب بھی اس کا خرچہ پورا نہیں ہورہا۔ لہٰذا اس جریدے میں زیادہ تر پیڈ یعنی پیسے لے کر مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جریدے کے جنوبی ایشیا کی ایڈیٹر ایک بدبودار بھارتی خاتون صحافی ہے۔ سدھارام چندرن بھارت کے شہر بنگلورو میں مقیم ہے اور اکثر پاکستان مخالف مضامین کو منتخب کرنے اور لکھوانے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس کا ذکر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ریاست مخالف مہم شروع کردی ہے۔ اپنے اس پروپیگنڈے کے تحت اس نے پاک چین تعلقات کو بھی نہیں بخشا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین سے متعلق مشترکہ بیان ان کے لئے چشم کشا ہونا چاہیے۔ جس رپورٹ کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی نے پروپیگنڈہ کیا، اس کی جنوبی ایشیائی ایڈیٹر بھارتی شہری ہے‘‘۔
واضح رہے کہ پاکستان اور چین نے سوشل میڈیا پر اس پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا ہے۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاک چین تعلقات کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ چین ایک سنگ میل اور کامیاب ہے۔ جو دونوں ممالک میں خوشحالی لائے گا۔ اس دورے نے بہت سی راہیں پیدا کی ہیں۔ جس سے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی۔ جو دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی علامت ہے۔ اس چینی اعلان کے بعد پی ٹی آئی کی صفوں میں ماتم ہے۔ پروپیگنڈے کو ہوا دینے والا پی ٹی آئی کا آفیشل ایکس اکائونٹ ترجمان چینی وزارت خارجہ کے اس بیان کی پوسٹ لگانے سے گریزاں ہے۔