منی لانڈرنگ کے علیحدہ کیس بنانے اور جائیدادیں و اثاثے ضبط کرنے کیلیے رپورٹ ایف آئی اے کو ارسال کردی گئی، فائل فوٹو 
منی لانڈرنگ کے علیحدہ کیس بنانے اور جائیدادیں و اثاثے ضبط کرنے کیلیے رپورٹ ایف آئی اے کو ارسال کردی گئی، فائل فوٹو 

جوئے کا آن لائن نیٹ ورک نرغے میں آگیا

عمران خان :
ملک بھر میں آن لائن مختلف قسم کے جوئے اور سٹے کھلوانے والے نیٹ ورک نے شہریوں سے اربوں روپے بٹور کر جعلی کمپنیوں کے اکائونٹس کے ذریعے ہڑپ کر لئے۔ فراڈیوں نے شہریوں کو پیسوں کا لالچ دے کر ان کے شناختی کوائف حاصل کیے اور کئی بینک اکائونٹس بینکاروں کی ملی بھگت سے کھلوا کر ٹرانزیکشنز کرتے رہے۔ شہریوں کو بھاری منافع کا لالچ دے کر جوئے کی طرف راغب کرنے والوں نے خاندانوں سمیت بیرون ملک فرار ہونے کی کوششیں شروع کردیں۔ ایک مرکزی کردار رفیق جمعہ فرار ہوتے ہوئے فیملی کے ساتھ ایئر پورٹ سے پکڑا گیا۔ تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔

’’امت‘‘ کو ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں مختلف بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے کی بھاری رقوم کی مشکوک ٹرانزیکشنز کی رپورٹس پر انکوائری نمبر 30/2022 رجسٹرڈ کرکے تحقیقات شروع کی گئیں۔ اس انکوائری میں دیکھا گیا کہ جن افراد کے بینک اکائونٹس میں یہ رقوم آتی اور جاتی رہیں۔ ان کے ذرائع آمدن اور ٹیکس ادائیگی ایف بی آر میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ یعنی مذکورہ افراد کی مالی حیثیت ریکارڈ میں اتنی نہیں تھی جتنی کہ ان کے بینک اکائونٹس میں بھاری رقوم کے آنے اور جانے کا سلسلہ جاری تھا۔

مزید انکوائری میں انکشاف ہوا کہ اس نیٹ ورک سے منسلک 10 بینک اکائونٹس میں 2021ء سے لے کر 2022ء تک مجموعی طور پر 87 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس پورے نیٹ ورک کے مرکزی کرداروں میں ایک میاں بیوی محمد اعظم بیگ اور رباب خان شامل تھے۔ کیونکہ سب سے زیادہ رقوم انہیں کے اکائونٹس میں منتقل ہوئیں اور انہوں نے پوش علاقوں میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں بھی اسی رقم میں سے خریدیں۔

مذکورہ انکوائری پر اب ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں مقدمہ الزام نمبر 16/2024 درج کیا گیا ہے۔ اس کیس کی تفتیش میں مجموعی طور پر 17 افراد کو نامزد کیا گیا۔ جن میں سے 12 افراد وہ ہیں۔ جن کے بینک کھاتوں میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔ ان افراد میں یونیورسل مارکیٹنگ نامی کمپنی کا مالک شجاعت علی خان، طارق اینڈ سنز کمپنی کا مالک طارق میمن، طاہر مارٹ کمپنی کا مالک محمد طاہر، لیوش ٹریڈنگ کمپنی کا مالک محمد عبداللہ، کانسیپٹ جنرل ٹریڈن کا مالک محمد حنان، اوکیس ٹریڈنگ کمپنی کا مالک شیروز علی خان، فہد انٹر پرائزز کمپنی کا مالک فہد خان، رضوان ٹریڈنگ کمپنی کا مالک محمد رضوان، ملک ٹریڈرز کمپنی کا مالک محمد وسیم ملک، ربی ٹریڈرز کمپنی کا مالک محمد ربی، محمد اعظم بیگ اور رباب خان شامل ہیں۔

تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ مذکورہ جعلی کمپنیوں کے نام پر کھلوائے گئے اکائونٹس میں آن لائن جوئے سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم بالآخر میاں بیوی محمد اعظم بیگ اور رباب خان کے جن اکائونٹس میں منتقل کی جاتی رہیں۔ وہ ایک نجی بینک کی دو برانچوں میں آپریٹ کیے جاتے رہے اور تفتیش میں ان اکائونٹس کو چلانے میں مکمل سہولت کاری دینے کے شواہد سامنے آنے کے بعد مذکورہ بینک کے 5 افسران کو بھی نامزد کردیا گیا ہے۔

ان بینکاروں میں نیا آباد برانچ کا منیجر قیصر مجید، نیا آباد برانچ کا وزٹنگ افسر شیروز خان، محمد معاذ محمود، اسی بینک کی ایف بی ایریا برانچ کا منیجر محمد علی، ایف بی ایریا برانچ کے وزٹنگ افسر کے ساتھ علی سلیم اور ایف بی ایریا برانچ کا وزٹنگ افسر شامل ہیں۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ان بینک افسران نے بینکنگ قوانین کے برخلاف ان کھاتے داروں کو جعلی اور مشکوک دستاویزات پر بینک اکائونٹس کھولنے اور ان کو آپریٹ کرنے کے ساتھ ہر ٹرانزیکشن میں سہولت کاری فراہم کی اوراس کے عوض انہیں بھاری کمیشن ملتا رہا۔

عمومی طور پر کمپنیوں کے نام پر بینک اکائونٹ کھولنے کے لئے بینکنگ قوانین بہت واضح ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی ایس او پیز کے مطابق نجی بینکوں کے افسران کمپنی کے کھاتے کھولنے سے پہلے تصدیق کرلیں کہ یہ کمپنیاں اصل ہیں۔ ان کی ایف بی آر، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان میں رجسٹریشن ہے۔ جبکہ بینکوں کے وزٹنگ افسر ان کمپنیوں کی جانب سے دیئے گئے پتوں پر جاکر بھی تصدیق کرنے کے پابند ہوتے ہیں کہ اس مقام پر ان کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں اور یہ کہ ان کا اسٹاف کام بھی کر رہا ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی کمپنیوں کی ہر ٹرانزیکشن سے متعلق ذرائع آمدنی اور رقوم کے لین دین کے مقاصد کی دستاویزات بھی ریکارڈ کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔ تاہم اس کیس میں بینک افسران نے ذاتی کمیشن کے چکر میں ان تمام قوانین کو پس پشت ڈالے رکھا۔ حیر ت انگیز طور پر بینک کی انتظامیہ اور آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

اس کیس میں اس وقت ایک اہم موڑ سامنے آیا۔ جب تفتیشی افسر کو ایسے شواہد ملے کہ مذکورہ میاں بیوی اور جعلی کمپنی مالکان بینک افسران کے بعد اس کیس کا دوسرا حصہ ہیں۔ جبکہ انہیں استعمال کرنے والا اصل میں ایک تیسرا گروپ ہے۔ جس نے جوئے کی آن لائن ایپس بنائیں اور ملک بھر میں کام شروع کیا۔ جب ایف آئی اے نے ان افراد کو ٹریس کر کے ان کو گرفتار کرنے کی کی کارروائی شروع کی تو اس سے پہلے ہی انہوں نے ملک سے فرار ہونے کے منصوبے بنالئے۔ تاکہ دبئی اور دیگر ممالک میں بجھوائی گئی رقوم سے انجوائے کر سکیں۔

اس دوران ایف آئی اے نے رفیق جمعہ کو اس کے بچوں اور اہلیہ سمیت اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ کراچی ایئر پورٹ سے بیرون ملک فرار ہونے کے لئے امیگریشن کائونٹرز پر پہنچا۔ ملزم نے گرفتاری کے بعد ابتدائی تفتیش میں اہم انکشافات کیے ہیں اور اپنے ساتھ جوئے کا سیٹ اپ شروع کرنے والے متعدد دیگر افراد کے نام بھی اگل دیئے ہیں۔ جن کے فرار کے راستے مسدود کرنے کے لئے انہیں پی این آئی لسٹ سمیت ای سی ایل میں ڈالنے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک کے خلاف اس کیس کے علاوہ منی لانڈرنگ کے علیحدہ کیس بنانے اور ان کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کرنے کے لئے ایک رپورٹ ایف آئی اے اے ایم ایل سرکل کو ارسال کردی گئی ہے۔ جس پر ایک علیحدہ انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔