ارشاد کھوکھر:
سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے موثر کارروائی نظر نہ آنے کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری خود دونوں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے متحرک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے والے جرائم پیشہ افراد جن میں کچے کے ڈاکو بھی شامل ہیں، کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم سنگین جرائم میں ملوث ڈاکوئوں کو رعایت نہیں ملے گی۔
اس کے علاوہ انہوں نے مختلف قبائل کے درمیان تصادم کے خاتمے کے لئے تمام سرداروں کا جرگہ بلاکر اختلافات اور ڈاکوئوں کی سرپرستی بند کرانے کے بھی احکامات جاری کئے ہیں کیونکہ کچے کے علاقے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کی بڑی وجہ مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم بھی ہے۔ صدر مملکت نے پولیس اہلکاروں کے لئے مراعات میں اضافہ کرنے اور ان کی ٹریننگ و دیگر پروفیشنل صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ کچے کے علاقے میں صحت ، تعلیم سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانے کے بھی احکامات جاری کئے ہیں۔
سندھ کے ساتھ اس مرتبہ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کا قیام وجود میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سب سے زیادہ پریشان مذکورہ دونوں صوبوں میں امن امان کی صورتحال ہے لیکن اب تک اس سلسلے میں دونوں صوبائی حکومتیں خاطر خواہ نتائج نہیں حاصل کرسکی ہیں۔ جس کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے خود بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔
نئی حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلے انہوں نے یکم مئی کو کراچی میں وزیراعلیٰ ہائوس میں ایپکس کمیٹی کے طلب کردہ اجلاس کی صدارت کی تھی۔ جس میں اسٹریٹ کرائم و دیگر جرائم کو کنٹرول کرنے کے ساتھ انہوں نے خصوصاً کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف موثر آپریشن کرکے ڈاکوئوں کا قلع قمع کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ جس کے بعد صدر زرداری نے اسی طرز پر20 جون کو بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے گوادر میں اجلاس طلب کیا تھا۔
مذکورہ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، بلوچستان کے وزیر داخلہ، پولیس ، لیویز وغیرہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔ جس کے بعد انہوں نے گزشتہ روز اس سلسلے میں سکھر میں اجلاس طلب کیا۔ مذکورہ اجلاس میں بھی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی شامل تھے جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزرا ناصر حسین شاہ، شرجیل انعام میمن ، ضیا الحسن لنجار، ایم این اے سید خورشید شاہ ، ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اظہر وقاص ، جی او سی پنوعاقل میجر جنرل عامر امین اور دیگر اعلیٰ وفاقی حکام کے ساتھ آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے ڈی آئی جیز و دیگر افسران نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ خصوصاً کچے کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی بنیادی وجہ مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم ہے۔ جس کے باعث کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور متعلقہ قبائل سے وابستہ افراد اور خصوصاً سردار ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لئے اپنے قبائل سے تعلق رکھنے والے ڈاکوئوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اور اس سلسلے میں کئی قبائلی سرداروں کو وارننگ بھی دی جاچکی ہے۔ حکومت سندھ کا موقف رہا ہے کہ کچے کے علاقے کو پرامن بنانے کے لئے مختلف قبائل کو آپس کے اختلافات ختم کرکے ایک پیج پر آنا پڑے گا۔ جس کے نتیجے میں ڈاکو بھی کمزور ہوں گے۔
گزشتہ روز کمشنر ہائوس سکھر میں صدر مملکت آصف علی زرداری کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں انہیں امن و امان کی صورتحال کے متعلق بریفنگ دی گئی۔ جس میں آئی جی سندھ پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ پہلے کے مقابلے میں اب صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی ہے اور گزشتہ دو ماہ کے دوران سکھر ملتان موٹر وے پر ڈاکوئوں کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ٹارگٹڈ آپریشن اور سمارٹ کیمروں کی تنصیب سے جرائم پر قابو پانے اور ڈاکوئوں اور دیگر مجرموں کے معاونین کی شناخت کے بعد انہیں گرفتار کرنے میں مدد ملی ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے اجلاس کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ 133 مشترکہ آپریشنز کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں ڈاکوئوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور جرائم پر قابو پانے کے لئے کچے کے علاقے میں اضافی چیک پوسٹ بھی قائم کی گئی ہیں۔
اجلاس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے احکامات جاری کئے کہ کچے کے علاقے میں سنگین جرائم میں ملوث ڈاکوئوں کو چھوڑ کر باقی جو جرائم پیشہ افراد ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہیں انہیں بتدریج قومی دھارے میں لایا جائے۔ انہیں ملک کا ذمہ دار اور نتیجہ خیز شہری بنانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ تاہم سنگین جرائم میں ملوث رہزنوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔
صدر مملکت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کچے کے علاقوں میں آباد لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جس میں خصوصاً صحت ، تعلیم کو زیادہ ترجیح دی جائے۔ تاکہ لوگوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر ہوسکے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ تمام قبائلی سرداروں پر مشتمل ایک قومی جرگہ بلایا جائے جو مقامی آبادی کو معمول پر لانے اور جرائم کی روک تھام اور علاقے کو اسلحے سے پاک کرنے اور سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے جرگے میں بات چیت کی جائے۔
صدر زرداری نے حکومت سندھ کو یہ بھی تجویز دی کہ پولیس اہلکاروں کو خصوصی ٹریننگ دی جائے اور ان کی مراعات میں بھی اضافہ کیا جائے۔ اجلاس کو وزیراعلیٰ سندھ نے آگاہ کیا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد شروع کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں رواں مالی سال کے بجٹ میں فنڈز بھی مختص کئے گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ صدر مملکت کو امن و امان و سیکورٹی کے امور کے متعلق بریفنگ دینے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ نے اس سلسلے میں 21 جون کو اجلاس طلب کیا تھا۔ مذکورہ اجلاس میں کچے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ پولیس کو مراعات فراہم کرنے ، سیف سٹی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے اور اسٹریٹ کرائم میں کمی لانے کے امور پر غور کیا گیا تھا۔
مذکورہ اجلاس کو صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے بریفنگ دیتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ کچے کے علاقے میں آپریشن کے لئے تقریباً 200 آر آر ایف اہلکاروں کو بھی شکارپور، گھوٹکی اور کشمور میں تعینات کیا گیا ہے۔ اور مذکورہ علاقوں میں سندھ پولیس اور رینجرز کے اہلکار انٹیلی جنس کی بنیاد پر مشترکہ آپریشن کر رہے ہیں۔ مذکورہ اجلاس کو صوبائی وزیر داخلہ نے آگاہ کیا تھا کہ گھوٹکی ، کشمور اور شکارپور کے علاقوں کے لئے 14 ڈرونز منگوائے گئے ہیں۔
مذکورہ اجلاس میں انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے مزید 20 ڈرونز کی خریداری کی درخواست کی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ، واہ انڈسٹریز سے مزید 20 ڈرونز کی خریداری کی منظورے دے چکے ہیں اور انہوں نے آئی جی سندھ پولیس کو یہ احکامات بھی جاری کئے تھے کہ پولیس اہلکاروں کو ڈرونز چلانے کی تربیت بھی دی جائے اور ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں کو اسنائپر شوٹنگ کی تربیت بھی دی جائے۔ جس پر وزیرداخلہ نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ کئی اہلکاروں کو مذکورہ تربیت دی گئی ہے اور مزید کو بھی یہ تربیت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔