امت رپورٹ :
بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی نے ہیومن ملک بینک کو چار دہائیاں قبل ممنوعہ قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود جب ترکی اور بنگلہ دیش میں اس نوعیت کے بینک کھولنے کی کوشش کی گئی تو دینی و عوامی حلقوں کی طرف سے شدید احتجاج ہوا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں ہیومن ملک بینک کھولنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اسی طرح کا ایک معاملہ پاکستان میں درپیش ہے۔
کراچی میں ہیومن ملک بینک دارالعلوم کراچی سے ایک مشروط فتویٰ حاصل کرنے کے بعد کھولا گیا تھا۔ لیکن دارالعلوم کراچی کی جانب سے اپنا ہی فتویٰ واپس لئے جانے کے بعد عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ تاہم اسے دوبارہ کھولنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے ہیومن ملک بینک کو ممنوعہ قرار دیئے جانے کا ذکر کرتے چلیں۔
57 اسلامی ممالک کی نمائندہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی نے تقریباً چالیس برس قبل ہیومن ملک بینک کے قیام کو ناجائز قرار دیدیا تھا اور کہا تھا کہ ’’انسانی دودھ کے بینکوں کا تصور اور تجربہ مغربی ممالک میں شروع کیا گیا اور یہ ایک نیا رجحان ہے۔ اس عمل میں کچھ سائنسی اور تکنیکی منفی اثرات کا پتہ چلا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسانی دودھ پلانے سے نسب کا ایک رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ شریعت کے مقاصد میں سے ایک انسان کی اولاد کی حفاظت کرنا ہے۔
جبکہ انسانی دودھ کے بینک الجھنوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں سماجی ڈھانچہ ایسا ہے کہ وہ قبل از وقت پیدا ہونے والے کمزور بچوں کی قدرتی دودھ سے متعلق ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ لہٰذا انسانی دودھ کے بینکوں پر انحصار مجبوری نہیں۔ چنانچہ مسلم دنیا میں انسانی دودھ کے بینکوں کے قیام کو ممنوع قرار دیا جائے اور یہ کہ مسلمان بچے کو ان بینکوں سے دودھ پلانا بھی ممنوعہ ہے‘‘۔
یہ فتویٰ بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے دسمبر دو ہزار پچاسی میں جاری کیا تھا۔ اس فقہ اکیڈمی کے اہم ارکان میں مفتی تقی عثمانی بھی شامل ہیں۔ جو پاکستان میں پہلے ہیومن ملک بینک کے قیام کا مشروط فتویٰ جاری کرنے والے دارالعلوم کراچی کے سربراہ بھی ہیں۔ تاہم دارالعلوم کراچی کی جانب سے ہی اب یہ فتویٰ واپس لیا جاچکا ہے۔ مفتی تقی عثمانی انیس سو تراسی سے بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی کے رکن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب انیس سو پچاسی میں اکیڈمی نے ہیومن ملک بینکوں کو ناجائز قرار دیا تو اس وقت وہ بھی اکیڈمی کا حصہ تھے۔ جدہ میں واقع بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ذیلی ادارہ ہے۔ جس کے ارکان میں مختلف ممالک کے نام ور مسلمان فقہا، جید علما، اسکالرز، محققین اور دانشور شامل ہیں۔ اس فقہ اکیڈمی کے پاس قرآن پاک اور سنت نبوی ﷺ کی روشنی میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مختلف مسائل پر شریعت کے احکام اور دفعات واضح کرنے کی ذمہ داری ہے۔
جب ستاون اسلامی ممالک کی نمائندہ اور اسلامی دنیا کے جید علما اور محققین پر مشتمل فقہ اکیڈمی نے قریباً چار دہائی قبل ہیومن ملک بینک کو متفقہ طور پر ممنوعہ قرار دیدیا تھا تو اس کے بعد اصولاً کسی سوال کی گنجائش نہیں بنتی تھی۔ اس کے باوجود ترکی اور بنگلہ دیش نے بالترتیب دو ہزار تیرہ اور دو ہزار انیس میں انسانی دودھ بینک کھولنے کی تیاری کرلی تھی۔ تاہم دینی و عوامی حلقوں کے زبردست احتجاج پر دونوں ممالک کی حکومتوں کو اپنا یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا تھا۔ تقریباً یہی صورتحال پاکستان میں پہلا ہیومن ملک بینک کھولنے کے موقع پر بھی دیکھنے میں آئی۔ بظاہر دینی و عوامی حلقوں کے احتجاج پر عارضی طور پر یہ بینک بند کردیا گیا۔ لیکن اسے دوبارہ فعال کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نیٹولوجی نے آٹھ جون کو کراچی میں ملک کا پہلا ہیومن ملک بینک کھولا تھا۔ یونیسف کے تعاون سے قائم کیے گئے اس بینک میں مائیں ان نوزائیدہ بچوں کے لئے دودھ جمع کراسکتی ہیں۔ جو بچے کسی بھی وجہ سے ماں کا دودھ پینے سے محروم رہ گئے ہوں۔ تاہم اس بینک کے قیام کا اعلان ہوتے ہی دینی و عوامی حلقوں کی جانب سے بالخصوص سوشل میڈیا پر شدید احتجاج ہوا اور ایسے بینک کو شرعی اصولوں کے منافی اور حرام قرار دیا گیا۔ جس پر سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نیٹولوجی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’دارالعلوم کراچی کی جانب سے سولہ جون دو ہزار چوبیس کو جاری کیے گئے ایک نظرثانی شدہ فتوے کے سبب ہم ہیومن ملک بینک کو عارضی طور پر بند کر رہے ہیں۔ ہم دارالعلوم کراچی اور اسلامی نظریاتی کونسل، دونوں سے اس معاملے پر مزید رہنمائی حاصل کریں گے‘‘۔
دارالعلوم کراچی نے نظر ثانی شدہ فتوے سے قبل پچیس دسمبر دو ہزار تئیس کو جو فتویٰ جاری کیا تھا۔ جس کو بنیاد بناکر کراچی میں ہیومن ملک بینک کھولا گیا۔ فتوے میں چند شرائط کے ساتھ ملک بینک کھولنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مثلاً ’’دودھ دینے والی خواتین کا مکمل ڈیٹا رکھا جائے اور بچوں کی مائوں کے ساتھ شیئر کیا جائے، جنہیں وہ دودھ دیا جارہا ہو تاکہ رشتہ داری کا ریکارڈ برقرار رکھا جاسکے۔ یہ سروس مفت فراہم کی جائے گی۔ اس میں خرید و فروخت کا کوئی تصور نہ ہو۔ مسلم بچوں کو صرف مسلم مائوں کا دودھ دیا جائے۔ خاندانوں کو رشتہ داری کے تصور کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے۔ دودھ صاف اور بیکٹریا سے پاک ہو اور صحت مند مائوں سے حاصل کیا گیا ہو۔ اس سرگرمی کی نگرانی ایک ڈیٹا بیس کے ساتھ کی جائے‘‘۔
بعد ازاں نظرثانی شدہ فتوے میں کہا گیا۔ ’’ہیومن ملک بینک کے سلسلے میں مشروط جواز پر مبنی جو فتویٰ جاری کیا گیا تھا، اس سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی ملک بینک کی ممانعت کی قرارداد پاس کی ہے۔ اس سے قبل کڑی شرائط کے ساتھ ملک بینک کی گنجائش کا پہلو ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن اب مکرر غور اور حضرات اکابر سے مشاورت کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ جن شرائط کا فتوے میں ذکر کیا گیا، عملی اعتبار سے ان کو پورا کرنا نہایت دشوار اور تقریباً ناممکن ہے‘‘۔
دارالعلوم کراچی کی جانب سے نظر ثانی شدہ فتوے کے بعد شہر میں قائم ملک بینک عارضی طور پر بند کیا جاچکا ہے۔ تاہم یہ بینک تقریباً دو ہفتے کھلا رہا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عرصے کے دوران بینک میں کتنا دودھ اسٹور کیا گیا؟ کتنے بچوں کو پلایا گیا؟ دودھ عطیہ کرنے والی خواتین کون تھیں؟ کیا ان کا ڈیٹا مرتب کیا گیا؟
ان سوالات کے جواب کے لئے جب ’’امت‘‘ نے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نیٹولوجی کی کوآرڈینیٹر انعم شکیل سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جتنے عرصے بھی ملک بینک کھلا رہا، کسی ماں نے اپنا دودھ جمع نہیں کرایا ۔ لہٰذا بچوں میں دودھ تقسیم نہیں ہوا۔ اس سوال پر کہ بینک کو دوبارہ فعال کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور دارالعلوم کراچی سے کب رابطہ کیا جائے گا؟ انعم شکیل نے بتایا ’’اسلامی نظریاتی کونسل سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے توسط سے رابطہ کیا جائے گا، جس کے لئے ہم سوالات مرتب کر رہے ہیں۔ جبکہ دارالعلوم کراچی میں اس وقت سالانہ تعطیلات چل رہی ہیں۔ جیسے ہی یہ چھٹیاں ختم ہوں گی تو ان سے رابطہ کرلیا جائے گا‘‘۔