قانون سازی نہ کرنے کے باعث پکڑے جانے والے بھکاری آسانی سے چھڑالیے جاتے ہیں، فائل فوٹو
 قانون سازی نہ کرنے کے باعث پکڑے جانے والے بھکاری آسانی سے چھڑالیے جاتے ہیں، فائل فوٹو

گداگر مافیا نے دھندا بڑھانے کیلیے انسانی اسمگلرز کی مدد حاصل کرلی

عمران خان :
پاکستان میں موجود عالمی گداگر مافیا نے اپنے دھندے کا دائرہ کار زیادہ سے زیادہ ممالک تک وسیع کرنے کیلئے انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کی مدد حاصل کرلی ہے۔ سعودی عرب، ایران اور عراق کے مقدس مقامات پر حج، عمرہ، اور زیارتوں کی آڑ میں شروع ہونے والا بھیک مانگنے کا سلسلہ اب ملائیشیا، انڈونیشیا، جاپان، چین اور دیگر افریقی ممالک تک پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان گداگر گروپوں سے حوالہ ہنڈی کا ایک بڑا وسیع نیٹ ورک بھی منسلک ہے۔ جو سالانہ کروڑوں ڈالرز کے برابر مختلف ممالک کی کرنسیاں حوالہ ہنڈی کے ذریعے منتقل کر رہا ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب میں مسجد الحرام اور دیگر مقدس مقامات پر بھکاریوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ گزشتہ روز بھی بھکاری سعودیہ میں اپنی سزا پوری کرنے اور جرمانہ بھرنے کے بعد واپس پاکستان ڈی پورٹ ہوکر آئے ہیں۔ کراچی آنے والے ان بھکاریوں کے خلاف مقدمات پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 420 کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ ان بھکاریوں کو حراست میں لینے کے بعد اینٹی ہیومن ٹریکفنگ سرکل کے افسران مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ ان کے خلاف پی پی سی کی دفعہ 420 کے علاوہ انسانی اسمگلنگ اور امیگریشن سے متعلق کس قانون کی دفعات کو مقدمات میں شامل کیا جائے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق گزشتہ دو برس سے سعودی، ایرانی اور عراقی حکومتوں کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی جانب سے سرکاری سطح پر پاکستانی حکام سے ان معاملات پر کئی مرتبہ سنجیدگی سے بات کی گئی ہے اور بھکاریوں کو پاکستان سے ان ممالک میں آنے سے روکنے کیلئے اقدامات کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ تاہم اب تک وفاقی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ حالانکہ پارلیمنٹ میں روزانہ کی بنیاد پر نت نئے قوانین بنانے اور ان کو نافذ کرنے پر بات ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اس اہم معاملے پر اب تک کوئی قانون بنا کر ایف آئی اے کے شیڈول پر نہیں دیا گیا۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول وفاقی حکومت کی جانب سے ہر بار بیرونی دنیا کی جانب سے معاملہ اٹھائے جانے کے بعد زبانی کلامی احکامات جاری کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایف آئی اے ہیڈ کواٹرز میں تعینات کیے جانے والے حکام بھی اب تک کوئی مستقل پالیسی بنا کر ماتحت سرکلوں کو بھیج کر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اس ضمن میں ایف آئی اے کے بعض سینئر افسران نے مزید معلومات حاصل کیں تو اس منظم گداگر مافیا کے حوالے سے اہم حقائق سامنے آئے۔ ذرائع کے مطابق اس صورتحال میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر ڈائریکٹوریٹ جنرل کے اپنے حکام کی نااہلی بھی شامل ہے کہ آج تک ان عالمی گداگروں کے حوالے سے کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ہی آج تک پکڑے جانے والے اور ڈی پورٹ ہونے والے بھکاریوں سے تفتیش کرکے علاقائی سطح پر ان کے سرگرم گروپوں اور ایجنٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ زیادہ تر ایسے پروفیشنل بھکاری بنجاب کے علاقوں رحیم یارخان، ملتان، صادق آباد، راجن پور چولستان، شہداد کوٹ اور جیکب آباد وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اسی گداگر مافیا کی وجہ سے پاکستان کا امیج اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ عراقی حکام نے ایئرپورٹ اور سرحدی چوکی پر پہنچنے والے پاکستانیوں سے ویزے رکھنے شروع کر دیئے ہیں کہ واپسی پر انہیں یہ ویزے لوٹا دیئے جائیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں دو برس قبل تک پاکستانیوں کے حوالے سے امیگریشن پالیسیاں قدرے نرم تھیں۔ تاہم اب انہوں نے بھی پاکستان کے مخصوص علاقوں کا پاسپورٹ رکھنے والوں کو ویزے دینے سے گریز شروع کردیا ہے۔ جبکہ پاکستانیوں کے حوالے سے امیگریشن پالیسی بھی سخت کرلی ہے۔

اسی طرح ایران میں بھی دیگر ممالک کے شہریوں کی بہ نسبت پاکستانیوں کے حوالے سے امیگریشن پالیسیاں انتہائی سخت ہیں۔ یہی سلسلہ برقرار رہا تو دیگر ممالک تک پاکستان کی بدنامی اور امیگریشن کی سختیوں کا سلسلہ دراز ہوجائے گا۔ ذرائع کے بقول گزشتہ برسوں میں عمرے اور حج سیزن میں سعودی عرب میں بھکاریوں کا نیٹ ورک چلانے والوں نے جب مسجد الحرام، مدینہ میں روضہ مبارک کے ساتھ ہی غار حرا تک پہاڑیوں میں اپنے سینکڑوں گداگر بٹھائے۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات میں بھی بھکاریوں کو کام پر لگا دیا۔ جس سے یو اے ای کے حکام بہت تنگ ہوگئے ہیں اور اب انہوں نے بھکاریوںکو گرفتار کرنے کے ساتھ 5 ہزار درہم کے جرمانے عائد کرنے شروع کردیئے ہیں جو 4 لاکھ روپے تک بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے اور رہائش، ویزے کے اخراجات پر فی بھکاری 10 لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اربوں روپے مالیت کا دھندا ہے۔

واضح رہے کہ اس معاملے پر گزشتہ برس ستمبر کے آخر میں اس وقت حکومت نے ایف آئی اے کو ملک بھر کے ایئر پورٹس پر کریک ڈائون کی ہدایات جاری کی تھیں۔ جب سعودی عرب اور عراق سے درجنوں گداگروں کو حراست میں لے کر پاکستان ڈیپورٹ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب اور عراقی حکام کی جانب سے آنے والے ردعمل میں خود پاکستانی سینیٹ منظور کاکڑ کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں سیکریٹری اوورسیز ذالفقار حیدر پھٹ پڑے کہ عرب ممالک میں 90 فیصد گرفتار بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ذوالفقار حیدر نے بتایا تھا کہ حرم کے اندر سے جتنے جیب کترے پکڑے جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے اور یہ بڑی بدنامی کی بات ہے۔ ’’امت‘‘ کو ایک سینئر ایف آئی اے افسر نے بتایا ہے کہ اس وقت کم سے کم ایجنٹوں کے 50 سے زائد گروپوں نے مقامی گدا گروں کے ذریعے سعودی عرب اور عراق میں بھیک منگوانے کا دھندا شروع کر رکھا ہے۔ عمرہ، زیارت اور تعلیم کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ ان گداگروں اور ان کے خاندانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور ان کی کمائی سے ماہانہ وصولیاں کرتے ہیں اور یوں برس ہا برس ان کی کمائی چلتی رہتی ہے۔

ایف آئی اے افسر کے مطابق ان 6 مخصوص علاقوں سے ماضی میں جانے والے درجنوں ایسے بھکاری اب بڑے اور کروڑ پتی ایجنٹ بن چکے ہیں۔ جنہیں اس منافع بخش دھندے کیلئے تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کے ان علاقوں میں سرگرم عہدیداروں اور جاگیر داروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ تاہم اس مافیا پر کنٹرول کرنے میں سب سے بڑی کوتاہی حکومت اور ایف آئی اے کی اپنی ہے۔ کیونکہ جب بھی بیرون ملک سے بدنامی کی وجہ سے دبائو آتا ہے تو وقتی طور پر ایف آئی اے کو سرگرم کردیا جاتا ہے اور معاملہ دبنے پر پھر معمول کے مطابق خاموشی ہوجاتی ہے ۔100 گداگراگر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں تو کارگردگی دکھانے کے لئے 10یا 15 کو روک لیا جاتا ہے اور باقی نکل جاتے ہیں۔ کیونکہ ان پر ویزوں، پاسپورٹ اور ٹکٹ کی مد میں ایجنٹوں اور ان کے سرپرستوں نے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری رکھی ہوتی ہے۔ جس کے ضائع ہونے کے خدشات کی وجہ سے ایف آئی اے کے بعض افسران اور اہلکاروں کو سیٹنگ میں لے لیا جاتا ہے۔