محمد علی :
اسرائیل نواز جرمنی میں مسلمانوں کا جینا محال ہوگیا ہے۔ جرمنی نے گزشتہ دنوں ایسا قانون منظور کیا ہے۔ جس کے تحت جرمن شہریت کے خواہشمندوں کو اسرائیل کی وفادار کا تحریری حلف نامہ جمع کرانا ہوگا۔ اسی اثنا میں مسلمانوں سے تعصب کی ایک اور باعث تشویش رپورٹ سامنے آگئی ہے۔ جس میں مسلمانوں کے خلاف جرائم دگنے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں جسمانی حملوں سمیت دھمکیاں دینے کے رحجان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ عام جرائم زبانی حملوں، نسلی ریمارکس یا توہین آمیز الفاظ کے تھے۔ جرمنی میں اسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف قائم ایک اتحاد نے کہا ہے کہ جرمنی میں گزشتہ برس اسلام مخالف جرائم بڑھ کر دو گنا سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔
اس اتحاد نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2023ء میں جرمنی میں اسلام مخالف جرائم کے کُل ایک ہزار 926 مقدمات درج کیے گئے۔ اس تعداد میں اس سے ایک سال قبل یعنی 2022ء کے مقابلے میں اوسطاً ہر روز پانچ واقعات سے کچھ زیادہ اور مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد مقدمات کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔
کلیمز نامی تنظیم کی ڈائریکٹر ریما ہانانو نے کہا کہ جرمن معاشرے میں مسلم مخالف نسل پرستی سماجی طور پر آج سے قبل اتنی قابل قبول کبھی نہیں تھی۔ اس اتحاد کی مرتب کردہ رپورٹ کا عنوان دوسری عالمی جنگ کے بعد تیار کردہ موجودہ وفاقی جرمن آئین کے پہلے آرٹیکل کے الفاظ میں تبدیلی کے ساتھ لکھی گئی ہے۔
وفاقی جرمن آئین میں واضح طور پر تحریر ہے کہ انسانی وقار ’’مقدم‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کسی بھی حالت میں نفی نہیں کی جا سکتی۔ تاہم اس رپورٹ میں ’’مقدم‘‘ کو ’’غیر مقدم‘‘ کے ساتھ عمداً تبدیل کر کے لکھی گئی سرخی کے ساتھ یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آئین میں دی گئی ضمانتوں کے برعکس انسانی وقار کا احترام یا تحفظ نہیں کیا جا رہا۔ اس سرخی کا سیاق و سباق اس لیے بھی خاصا اہم ہے کہ یہ رپورٹ اور اس کا عنوان موجودہ وفاقی جرمن آئین کے نفاذ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر تحریر کیے گئے۔
کلیمز نے مزید کہا کہ اس نے ایسے جرائم کی اپنی فہرست جرمن پولیس کی کمیونیکیشن اور متعدد دیگر ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کا استعمال کرتے ہوئے مرتب کی۔ اس رپورٹ میں زیربحث سب سے زیادہ عام جرائم زبانی حملوں یا توہین آمیز الفاظ کی ادئیگی کے تھے۔ اس کے بعد امتیازی سلوک، دھمکیوں اور زبردستی کے واقعات سب سے زیادہ رہے۔ 178 واقعات میں جسمانی نقصان کو بھی دستاویزی شکل دی گئی۔ جو اسلام مخالف اور مسلمان مخالف جرائم کی مجموعی تعداد کا تقریاً 10 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح اسی پس منظر میں اقدام قتل کے چار اور آتش زنی کے پانچ مقدمات بھی درج کیے گئے۔
اسرائیل اور حماس کے مابین غزہ میں جاری خونریز تنازعے نے جرمنی میں اسلام مخالف جرائم کے اعداد و شمار پر واضح اثر ڈالا۔ کلیمز نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ حماس حملے کے بعد غزہ پر مسلط اسرائیلی جنگ سے جرمنی میں اسلاموفوبک جرائم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میںاسلامو فوبک جرائم سے متعلق رپورٹ کلیمز کی طرف سے شائع کردہ اپنی نوعیت کی دوسری سالانہ رپورٹ ہے۔ اس سال اس کا آغاز اسلام مخالف جرائم کے خلاف عوامی بیداری کی ایک مہم کے ساتھ کیا گیا ہے۔