عمران خان :
پسماندہ گھروں کی کم عمر لڑکیوں کو ملازمت کے بہانے متحدہ عرب امارات لے جاکر فحاشی کا دھندا چلانے والے گروپ سرگرم ہوگئے۔ ان مجبور و بے کس لڑکیوں کو نہ صرف نائٹ کلبوں پر رکھا جاتا ہے۔ بلکہ ان کی فحش فلمیں بناکر بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔ تاکہ چند برس گزارنے کے بعد جب یہ لڑکیاں واپس کراچی آئیں تو انہیں خاموش رہنے پر مجبور کیا جائے یا پھر مزید بلیک میل کرکے پاکستان میں بھی مختلف علاقوں میں فحاشی کا دھندہ کروایا جائے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق ایسے گروپوں میں جہاں ایک جانب کئی عورتیں شامل ہیں۔ وہیں گروپوں کے کارندوں سے مستفید ہونے والوں میں کئی سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔ ان افسران کی وجہ سے ہی یہ گروپ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دبئی میں بھی ’مضبوط‘ ہیں۔ ان کے چنگل میں ایک بار جو لڑکی یا خاتون پھنس جائے۔ اس کا نکلنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ کراچی میں اس گروپ کے کارندے لڑکیوں کو بلیک میل کر کے گڈاپ، میمن گوٹھ، سپر ہائی پر قائم فارم ہائوسز اور گلستان جو ہر و گلشن اقبال کے فلیٹوں میں قائم ٹھکانوں پر منتقل کردیتے ہیں۔ اہم ذرائع کے مطابق ان گروپوں کے ذریعے اب تک کراچی سمیت ملک بھر سے سینکڑوں کم عمر لڑکیوں کو متحدہ عرب امارات کی ریاستو ں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے ایسے گروپوں کی چھان بین کیلئے ذرائع کے توسط سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی فائلوں تک رسائی حاصل کی گئی۔ جس میں انکشاف ہوا کہ ایک ایسا ہی بڑا گروپ کچھ عرصہ قبل تک کراچی کے علاقوں گلشن اقبال ابوالحسن اصفہانی رو ڈ اور گلستان جوہر میں ٹھکانے قائم کرکے کام کرتا رہا ہے۔
اس گروپ کے کارندے نہ صرف کم عمر لڑکیوں کو فحاشی کیلئے متحدہ عرب امارات کی ریاستوں میں منتقل کرتے رہے۔ بلکہ ساتھ ہی ان لڑکیوں کیلئے سفری دستاویزات تیار کروانے کیلئے غلط نام، ولدیت اور کوائف کے ذریعے جعلی پاسپورٹ بھی بنواتے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں اگر لڑکیاں ڈی پورٹ ہو کر کراچی پہنچ بھی جائیں تو تحقیقاتی ادارے اصل ملزمان کو شناخت کرنے میں مشکل کا شکار ہو جائیں۔
کیس اسٹڈی کے مطابق اس گروپ کا انکشاف اس وقت ہوا جب 15 برس کی عمر میں دبئی منتقل کی جانے والی 19 سالہ شازیہ اس گروپ کے چنگل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ مذکورہ لڑکی تحفظ کیلئے ایک این جی او کے پاس پہنچی۔ شازیہ کی داستان سننے کے بعد اس این جی او کی جانب سے ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا۔ جنہوں نے لڑکی کی درخواست پر ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کے حکام کو تحقیقات کی ہدایات دیں۔ جس کے بعد اس گروپ کے اہم ترین کارندے کا سراغ لگا کر اس کو گرفتار کر لیا گیا۔
ریکارڈ کے مطابق ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار مرکزی ملزم عبدالقیوم کیخلاف ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل میں باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی۔ جبکہ ملزم کی نشاندہی پر گروپ سے وابستہ دیگر اہم کارندوںکے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ ملزم عبدالقیوم، گلشن اقبال ابوالحسن اصفہانی روڈ کا رہائشی تھا۔ جبکہ متاثرہ لڑکی بھی ابوالحسن اصفہانی روڈ کی رہائشی تھی۔
اس کے والدین انتہائی غریب تھے۔ ان کا مکان اجمیری گوٹھ میں کرائے کا تھا۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ جبکہ والد بھی اکثر بیمار رہتے تھے۔ غریب خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکی۔ ان کے گھر کے حالات ایسے تھے کہ اکثر دو وقت کی روٹی بھی انہیں میسر نہیں ہو پاتی تھی۔ ان کے پڑوس میں فاطمہ نامی ایک خاتون رہائش پذیر تھی۔ جس کا اکثر ان کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔
اس وقت شازیہ کی عمر صرف 15برس تھی۔ انہی دنوں فاطمہ نامی خاتون نے باتوں باتوں میں شازیہ کی والدہ سے کہا کہ ان کے رشتے داروں کی دبئی میں کمپنی ہے۔ جہاں وہ کئی لڑکیوں کو باعزت ملازمت کیلئے بھجوا چکے ہیں اور وہ لڑکیاں لاکھوں روپے اپنے گھر والوں کو بھیج رہی ہیں۔ جس سے ان کے حالات بہتر ہوگئے ہیں۔ یہ بھی جھانسا دیا کہ کمپنی میں زیادہ تر ورکرز لڑکیاں پاکستان سے ہیں اور گھریلو ماحول میں مل کر رہتی ہیں۔
اس گروپ کے وسیع پیمانے پر کام کرنے کے حوالے سے مزید ثبوت یہ سامنے آیا کہ فاطمہ نامی خاتون کے پاس ہر وقت گھر پر مختلف لڑکیوں کے نام پر ڈھیر سارے پاسپورٹ رکھے رہتے تھے۔ یہی پاسپورٹ دکھا کر فاطمہ نے شازیہ کی والدہ کو باور کرایا کہ بہت سی لڑکیاں ملازمت کیلئے دبئی جارہی ہیں۔ فاطمہ اور عبدالقیوم کی ایک بیٹی مومل تھی جو شازیہ کی عمر تھی۔ بعد ازاں فاطمہ کے شوہر عبدالقیوم نے جعلسازی سے پاسپورٹ آفس کے ایجنٹ کے ذریعے شازیہ کا پاسپورٹ اپنی بیٹی کے کوائف پر بنوالیا۔ یعنی اس پاسپورٹ پر تصویر شازیہ کی لگی ہوئی تھی۔ لیکن نام، ولدیت اور دیگر کوائف عبدالقیوم کی بیٹی مومل کے تھے۔
پھر وہ دن بھی آگیا جب عبدالقیوم نے اسے بتایا کہ مجھے ایئرپورٹ چلنے کی تیاری کرنی ہے۔ کیونکہ دبئی بھجوانے کیلئے اس کا ٹکٹ وہ لے آیا ہے۔ یوں شازیہ کو دبئی پہنچا دیا گیا۔ دبئی میں پہنچنے کے بعد اسے ایک فلیٹ کے اندر رکھا گیا۔ جہاں پہلے سے تین لڑکیاں اور ایک عمر رسیدہ خاتون موجود تھیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد شازیہ کو معلوم ہوا کہ اسے دبئی میں ملازمت کیلئے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کیلئے لایا گیا ہے۔ یہاں سے شازیہ کی زندگی کا اذیت ناک سفر شروع ہوا۔ تقریباً ایک برس کے دوران اسے کئی عرب شیوخ کے علاوہ پاکستانی اور دیگر ممالک کے افراد کو فروخت کیا گیا۔
ایف آئی اے اور این جی او کے کیس ریکارڈ کے مطابق اس دوران شازیہ کو بلیک میل کرنے کیلئے اس کی وڈیوز بھی بنائی گئیں۔ جبکہ جن جن جگہوں پر شازیہ کو رکھا گیا۔ ان جگہوں پر کئی دیگر پاکستانی لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ یعنی کراچی میں سرگرم اس گروپ نے کئی پاکستانیوں لڑکیوں کو ملازمتوں کا جھانسا دے کر دبئی منتقل کیا۔ یہاں اس نے دیکھا کہ دبئی کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں پاکستانی لڑکیاں مختلف فلیٹس میں رکھی گئی تھیں۔ جن سے مکمل طور پر فحاشی کا دھندا ہی کرایا جاتا تھا۔ ان فلیٹوں پر عبدالقیوم جیسے کئی ایجنٹ پاکستان کے مختلف علاقوں سے لڑکیاں لاتے تھے۔ زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق پنجاب اور سندھ سے ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سرکاری افسران بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ جن کا خاص خیال رکھنے کو کہا جاتا تھا۔
اس دوران ایک بار شازیہ کو دبئی پولیس کی جانب سے ایک کلب پر چھاپے کے دوران بر آمد ہونے پر تفتیش کے بعد واپس کراچی ڈیپورٹ کر دیا گیا۔ تاہم جب شازیہ کراچی پہنچی تو عبدالقیوم نے ایک بار پھر اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ بعد ازاں عبدالقیوم نے دو ماہ بعد شازیہ کو دوبارہ دبئی بجھوا دیا۔ تاہم اس بار چند ماہ بعد ہی پولیس نے ایک چھاپے میں پکڑے جانے پر شازیہ کو ڈیپورٹ کردیا۔
دبئی کے سفر کیلیے بلیک لسٹ ہونے پر اس بار عبدالقیوم نے اس کو کراچی میں ہی رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ بعد ازاں شازیہ کے کوائف تبدیل کرکے ایک بار پھر رخسار کے نام سے اس کی شناختی دستاویزات بنواکر عبدالقیوم نے اس سے نکاح کرلیا۔ عبدالقیوم اسی طرح سے دبئی کیلئے بلیک لسٹ ہونے والی 4 لڑکیوں سے نکاح کرکے ان سے کراچی میں فحاشی کا دھندا کرواتا رہا۔ تقریباً 3 برس تک اس کے نرغے میں رہنے کے بعد شازیہ فرار ہو کر این جی او کی پناہ میں آگئی۔ جہاں پر اس کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ہی قانونی مدد بھی فراہم کی گئی۔
اس کیس میں شازیہ سے ملنے والی معلومات کے مطابق جس وقت وہ دبئی میں پکڑی گئی اور اس کو ایک شیلٹر ہوم میں منتقل کیا گیا تو اس وقت بھی پاکستان کے مختلف علاقوں سے تک تعلق رکھنے والی درجنوں لڑکیاں دبئی، العین اور راس الخیمہ میں قائم (ایوا ٹرسٹ) نامی ادارے کے تحت قائم تین (ایوا شیلٹرز ہومز) میں موجود تھیں۔ جن کو ملازمتوں کے بہانے یا پھر غربت کا فائدہ اٹھا کر متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا تھا اور ان لڑکیوں نے اس مکروہ فعل سے جان چھڑانے کیلئے اس شیلٹر ہوم میں پناہ لے لی تھی۔ ایوا ٹرسٹ کے شیلٹر ہومز صرف اور صرف ایسی خواتین کیلئے مختص ہیں۔ جنہیں متحدہ عرب امارات میں فحاشی کے دھندے کیلیے اسمگل کر کے لایا جاتا ہے اور ان کو پناہ کی ضرورت ہوتی ہے۔