ارشاد کھوکھر:
سندھ کے 77 لاکھ بچوں کے مستقبل سے وابستہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ پر مافیا کا راج تاحال برقرار ہے۔ ملی بھگت سے سرکاری کتب کی چھپائی میں تاخیر کرکے نجی پبلشرز کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ٹینڈر میں دیئے گئے کاغذ کے مقابلے میں غیر کم معیار والا کاغذ استعمال کرنے، ریکارڈ میں مفت کتابوں کی چھپوائی بڑھا چڑھاکر ظاہر کرنے کے ساتھ کرپشن کی خاطر دیگر کئی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ نجی اسکولوں کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کی فراہمی کے لئے سسٹم کا حصہ رہنے والے پرائیویٹ پبلشرز کو ٹھیکے دیئے جاتے ہیں اور انہیں دیئے جانے والے ٹھیکوں میں بڑا فراڈ بورڈ کی رائلٹی کی مد میں جاری ہیں۔ ملی بھگت کے باعث نہ صرف ڈیفالٹرز بلکہ توہین عدالت کے مرتکب ہونے والی اردو اکیڈمی کو بلیک لسٹ کرنے کے بجائے انہیں بھی کروڑوں روپے کی کتابیں شائع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سرکاری اسکولوں کو مفت کتابوں کی فراہمی میں محکمہ تعلیم کے ضلعی اور ڈویژنل سطح کے افسران کی لاپرواہی بھی معمول کے مطابق جاری ہے۔ جس کے باعث سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے کئی طالب علم مفت کتابوں کی فراہمی سے محروم ہورہے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے ڈھائی ارب روپے کے مقابلے میں رواں مالی سال میں صوبائی حکومت نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا بجٹ سات ارب روپے تک بڑھادیا ہے۔
سندھ کے طالب علموں کے مستقبل سے وابستہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جامشورو ابھی تک مافیا کی کرپشن کے چنگل سے نہیں نکل سکا ہے بلکہ دن بدن کرپشن کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ گزشتہ مالی سال 2023-24 میں صوبائی حکومت نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے بجٹ کی مد میں ڈھائی ارب روپے مختص کئے تھے۔ جبکہ رواں مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لئے تقریباً سات ارب روپے مختص کئے ہیں۔ جس کے لئے حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ پہلی تا دسویں جماعت تک تمام سرکاری اسکولوں میں مفت دیئے جانے والی کتابوں کے معیار کو بھی بہتر بنایا جائے اور کوئی بھی طالب علم مفت کتب کی سہولت سے محروم نہ ہوسکے۔
حکومت کا یہ دعویٰ اپنی جگہ۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ رواں سال تقریباً 47 لاکھ بچوں کے لئے مفت کتابوں کی چھپائی ہوگی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ریکارڈ میں جتنی کتابوں کی چھپائی ظاہر کی جاتی ہے اس کے مقابلے میں لاکھوں کی تعداد میں ہر سبجیکٹ کی کم کتابیں شائع کرائی جاتی ہیں اور یہ سارا کام متعلقہ پبلشرز (ٹھیکیداروں) اور بورڈ کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں کے لئے کاغذ کا جو معیار طے کیا جاتا ہے اس میں بھی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ رواں سال اس حوالے سے جو ٹینڈر طے کئے گئے ہیں اس میں کاغذ کا معیار 68 گرام رکھا گیا ہے۔
بورڈ کے اعلیٰ سطح ذرائع کا کہنا ہے کہ ہوتا کچھ ہوں ہے کہ کتابوں کا جب سیمپل جمع ہوتا ہے تو اس میں کاغذ کا معیار وہی ہوتا ہے جو ٹینڈر میں دیا جاتا ہے۔ لیکن کروڑوں کی تعداد میں ایسی کتابیں شائع ہوتی ہیں جن کا معیار 45 سے 55 گرام تک بھی بمشکل ہوتا ہے۔ جبکہ بورڈ کی انتظامیہ دعویٰ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ طے شدہ معیار سے کم معیار والے کاغذ کی کتابیں شائع ہوں کیونکہ اس سلسلے میں بورڈ آف گورنرز سے لے کر مانیٹرنگ کمیٹیاں ہر کتاب کے معیار کو مانیٹرنگ کرتی ہیں۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ایک کتاب کھول کر اس کا معیار دیکھا جائے کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہوتی ہیں۔
مفت کتابوں کی فراہمی میں اکثر محکمہ تعلیم کے متعلقہ اضلاع کے ڈسٹرکٹ افسران اور متعلقہ ڈویژن کے ڈائریکٹرز کی لاپرواہی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جو بھی کتابیں شائع ہوتی ہیں وہ محکمہ تعلیم کے تعلقہ سطح پر قائم اسٹورز میں انرولمنٹ کے مطابق پہنچائی جاتی ہیں۔ جہاں سے انرولمنٹ کے مطابق وصول کرکے بچوں کو فراہم کرنے کی ذمہ داری متعلقہ اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرزکی ہوتی ہے۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام بھی اس بات سے واقف ہیں کہ کئی ٹیچرز بروقت کتابیں وصول نہیں کرتے جس کے باعث متعلقہ اسکولوں کے بچے مارکیٹ سے کتابیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی مافیا کی ملی بھگت ہوتی ہے۔ اس کی بدولت نجی پبلشرز کا دھندہ چلتا ہے۔
درسی کتابوں کے حوالے سے بڑی کرپشن پرائیویٹ اسکولوں کے لئے شائع ہونے والی کتابوں میں ہوتی ہے۔ کیونکہ پرائیویٹ اسکولوں کو مفت کتابیں فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی نہیں ہے جس کے لئے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ اپنے پاس رجسٹرڈ پرائیویٹ پبلشرز کو اجازت دیتی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے لئے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع ہونے والی کتابوں کے نرخ بھی بورڈ طے کرتا ہے جس کے لئے بظاہر یہ طریقہ کار ہے کہ ہر کتاب کے کاغذ کے معیار اور اس کے صفحوں کی تعداد کے متعلق مارکیٹ میں سروے کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب کتنے میں شائع ہوسکتی ہے۔ پھر اس حساب سے تقریباً ساڑھے 12 فیصد پبلشر کے منافع کے ساتھ کتاب کی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں بھی ملی بھگت سے کتابوں کی جو اصل قیمت بنتی ہے اس سے بڑھاکر قیمت مقرر کرکے پبلشرز کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اور مذکورہ کتابوں کے لئے جو بھی قیمت طے ہوتی ہے اس کی فی کتاب کی قیمت کے حساب سے متعلقہ پبلشرز 13 فیصد سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو رائلٹی کی مد میں فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس میں بڑا فراڈ یہ ہوتا ہے کہ کسی پبلشر نے اگر ایک ایڈیشن کے طور پر 25 ہزار کتابیں شائع کرکے اس کی رائلٹی جمع کرادی جس کے بعد وہ دیگر ہزاروں کتابیں جو شائع کرتا ہے وہ ریکارڈ میں نہیں ہوتیں۔ اس کی رائلٹی ہڑپ کرنے میں بھی گٹھ جوڑ شامل ہوتا ہے۔ مذکورہ کتابوں کے لئے اکثر انہی پبلشرز کا انتخاب ہوتا ہے جن سے بورڈ کی انتظامیہ کی ملی بھگت کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔
جس کی مثال یہ ہے کہ اردو اکیڈمی سندھ کے پبلشر نے تقریباً ایک کروڑ 85 لاکھ روپے رائلٹی کی مد میں بورڈ کو ادا نہیں کئے تھے۔ وہ ڈیفالٹر ہوگئے تھے جس کے بعد مذکورہ پبلشر نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو فاضل عدالت نے پبلشر کو اردو اکیڈمی سندھ چار دن کے اندر رقم جمع کرانے کا فیصلہ سنایا لیکن ان چار دنوں کو چند ماہ گزر چکے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک رقم جمع نہیں کرائی اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب اردو اکیڈمی سندھ کو بلیک لسٹ کرنے کے بجائے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے انہیں مزید کروڑوں روپے کی کتابیں شائع کرنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اکیڈمی کے مالک عزیز خالد پر مہربانی اس لئے بھی ہے کہ پبلشرز مافیا کے وہ سرغنہ بھی ہیں۔ جتنے بھی ٹھیکے ہوتے ہیں ، ملی بھگت سے مختلف پبلشرز نے بانٹنے کی ذمہ داری انہی کی ہے۔ باقی ٹینڈرز وغیرہ طلب کرنے کا معاملہ صرف دکھاوا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بورڈ کی انتظامیہ کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ عزیز خالد قسطوں میں رقم جمع کرارہے ہیں۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب کو بورڈ کا چیئرمین یا کوئی اور افسر یہ اجازت دے سکتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کے برعکس قسطوں میں رقم جمع کرائے۔ لیکن یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ وہ پبلشرز مافیا کے سرغنہ ہیں اور انہی کی بدولت سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی مافیا کا دھندہ بھی چلتا ہے۔
جب اتنی کرپشن ہورہی ہو تو یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ایسے پبلشرز جن کے پاس سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے معیار کے مطابق کتابیں شائع کرنے کی مشینری یا صلاحیت نہیں ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ٹھیکہ حاصل کرکے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں۔ جس کی وجہ سے خود پبلشرز کی درمیان بھی مسابقت ہوتی ہے۔