شایان احمد:
دوحہ مذاکرات کے تیسرے دور کو افغانستان کی عبوری حکومت کیلئے سفارتی تنہائی کے خاتمے کی جانب اہم قدم قرار دیا جارہا ہے۔ کانفرنس میں پاکستان، روس اور سعودیہ سمیت 30 ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیوں کے نمائندے شریک ہیں۔ جبکہ خود افغان طالبان بھی پہلی بار ان مذاکرات حصہ بنے۔
گزشتہ دو دور میں عبوری حکومت نے اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔ دو روزہ کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے آصف درانی اوراحمد نسیم وڑائچ دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں۔ اقوام متحدہ کی دو روزہ کانفرنس کا مقصد افغان طالبان کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس کانفرنس کا آغاز اتوار کو ہوا تھا اور اس کا اولین مقصد طالبان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی روابط کو مضبوط بنانا ہے۔
؎افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مغربی ممالک کے ساتھ ہونے والی کسی اعلیٰ سطح کانفرنس میں کابل حکومت کاکوئی وفد بھی شامل ہوا ہے۔ طالبان کے وفد کی قیادت کابل حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کر رہے ہیں اور اس وفد نے مرکزی کانفرنس سے قبل روس، بھارت اور سعودی عرب جیسے ممالک کے نمائندوں سے ابتدائی بات چیت کی۔
طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سعودی عرب نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ریاض حکومت کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر غور کر رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے سعودی عرب کا کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا۔ افغان میڈیا کو حاصل ہونے والی اس میٹنگ کے ایجنڈے کی ایک نقل کے مطابق مرکزی کانفرنس میں اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو اور قطری وفد کے سربراہ نے ابتدائی تقاریر کیں اور اس کے بعد طالبان کے وفد کو خطاب کا موقع دیا گیا۔
اجلاس کے دوسرے دن افغانستان میں نجی شعبے اور انسداد منشیات کی کوششوں کے بارے میں بات چیت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے اس کانفرنس کو افغانستان اور عالمی برادری کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کا ایک موقع قرار دیا ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے ساتھ ساتھ بہت سے خصوصی ایلچی طالبان کے نمائندوں کے ساتھ الگ سے بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کانفرنس کے آغاز سے پہلے اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ اقوام متحدہ کا حتمی مقصد ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ہے، جو بین الاقوامی برادری میں شامل ہو اور انسانی حقوق سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کرے۔
حالیہ کچھ عرصے میں تبدیلی کے اشارے بھی ملے ہیں۔ اقوام متحدہ نے طالبان کے چند مرکزی رہنماؤں پر عائد سفری پابندیاں نرم کی ہیں جبکہ یورپی یونین نے بھی افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکومت اور افغانستان کے حوالے سے موجودہ بین الاقوامی موقف میں نرمی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔