عمران خان :
ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی جانب سے برآمدات سے جڑی ان کمپنی مالکان کے خلاف وسیع پیمانے پر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں جو برآمدات کے نام پر بھاری ٹیکس چھوٹ حاصل کرکے اربوں روپے کا خام مال منگواتے ہیں۔ تاہم اس سامان سے ایکسپورٹ میٹریل مصنوعات بناکر برآمد نہیں کر رہے۔ بلکہ یہ کمپنی مالکان اربوں روپے کا یہ سامان مقامی مارکیٹوں میں کمرشل نرخوں پر فروخت کرکے بھاری ناجائز منافع بٹورنے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میںقومی خزانے کو ایک جانب درآمدات پر اربوں روپے کے ٹیکس سے محروم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب زر مبادلہ کی مد میں بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی میں ڈائریکٹر انجینیئر حبیب کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈائریکٹر انعام اللہ وزیر کی سربراہی میں برآمدات کے نام پر کام کرنے والی ایسی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کے لئے ٹیم قائم کردی گئی ہے۔ اس ٹیم کی جانب سے اب تک 12 ایسے صنعتی یونٹوں کے مالکان کے خلاف کیس تیار کرلئے گئے ہیں جن کی کمپنیوں کے تفصیلی آڈٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے 2022ء اور اس سے قبل برآمدات کے نام پر کروڑوں روپے مالیت کا سامان ٹیکس چھوٹ پر درآمد کیا۔ تاہم اس سامان سے مصنوعات تیار کرکے انہیں ایکسپورٹ نہیں کیا گیا۔
دستاویزات کے مطابق ان کمپنیوں میں ایس ایم انٹر پرائزکے مالک فرقان پر مصنوعی چمڑے کی در آمد پر 2 کروڑ 24 لاکھ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ کانٹی نینٹل ٹریڈرز کے مالک فواد الرحمن خان پر مصنوعی چمڑے کی درآمد پر 2 کروڑ 8 لاکھ ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اوکیوبا انٹر نیشنل (Ocuba)کے مالک کامران پر پولیئسٹر اور ربن رولز کی در آمد پر 42 لاکھ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ کے ایف انٹر پرائززکے مالک محمد فہد قریشی پر مصنوعی چمڑے کی درآمد پر ایک کروڑ 57 لاکھ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔
زین انڈسٹریز ،گولڈ لائن اور حسین انٹر پرائززکے مالک سلمان زبیر پر پگمنٹ اور مصنوعی چمڑے کی درآمد پر ایک کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جاوا انڈسٹری، شیخ انٹر پرائزز اور زین برادرز کے مالک ثاقب سعید پر پولیسٹر اور دیگر خام مال کی در آمد پر ایک کروڑ دو لاکھ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ٹرپل اے ایسوسی ایٹ کے مالک محمد اکرام پر مصنوعی چمڑے کی درآمد پر 7 کروڑ 17 لاکھ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ ایم اے ایس انٹر نیشنل کے مالک محمد اصغر پر ربن رولز کی در آمد پر 16لاکھ روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق پاکستان کے انتہائی مخدوش معاشی حالات کے باجود برآمدات سے منسلک صنعتوں کو اربوں روپے کی سبسڈی کے ساتھ ٹیکس چھوٹ صرف اس لئے دی جاتی ہے کہ برآمدات کو فروغ دے کر زر مبادلہ کے حصول کو بڑھایا جاسکے۔ تاہم ان تمام تر کوششوں کے باجود گزشتہ 4 دہائیوں سے پاکستان کو ملنے والے زر مبادلہ کی مد میں برآمدات یعنی ایکسپورٹ سیکٹر کا حصہ 15فیصد سے بڑھایا نہیں جاسکا ہے۔
پاکستان اس وقت جن حالات کا شکار ہے ان میں ملک کے لئے زر مبادلہ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں یعنی اوورسیز شہریوں کی جانب سے بھیجے گئے زر مبادلہ پر انحصار زیادہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ حکومت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ بر آمدات کو بڑھا کر اس سے ملنے والے زر مبادلہ سے معیشت کو درست کیا جائے۔ کیونکہ دنیا بھر میں ترقی کے لئے برآمدات سے ملنے والے زر مبادلہ کی اہمیت ہی زیادہ اور مستحکم سمجھی جاتی ہے۔
ذرائع کے بقول ان تمام کوششوں کے باجود گارمنٹ، ٹیکسٹائل، چمڑے، رنگ سازی سمیت دیگر صنعتوں میں ایسی کالی بھیڑوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے جو حکومت کی جانب سے دی گئی سہولتوں کا غلط استعمال کرکے اس سے ناجائز اور غیر قانونی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق پورٹ قاسم ایکسپورٹ کلکٹریٹ میں تعینات افسران کی جانب سے ایسے کئی کیس پکڑے گئے ہیں جن میں معلوم ہوا ہے کہ بڑے ایکسپورٹ صنعتی یونٹوں کے مالکان بھی اس طرح کی ٹیکس چوریوں میں ملوث ہیں۔ ان کیسوں کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی سمیت ملک کے بڑے ٹیکسٹائل اور گارمنٹ کے صنعتی یونٹ ہر سال اربوں روپے کا خام مال بیرون ملک سے سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرکے درآمدکرتے ہیں کہ وہ اس سامان سے ایکسپورٹ کوالٹی کا سامان بنا کر واپس برآمد کریں گے۔
اس لیے حکومت برآمدات کی فروغ کے لئے ان یونٹوں کے مالکان کو ہر طرح کی سہولت دیتی ہے۔ تاہم کئی صنعتی یونٹوں کے مالکان ٹیکس چھوٹ پر سامان درآمد کرکے ملک میں کمرشل نرخوں پر فروخت کردیتے ہیں۔ اس طرح ایک جانب ٹیکس بچا تے ہیں اور دوسری جانب مقامی مارکیٹ سے زیادہ منافع کما لیتے ہیں۔ تاہم جب اسی سامان سے ایکسپورٹ میٹریل بنا کر برآمد کرنے کا وقت آتا ہے تو ناقص کوالٹی اور مقامی میٹریل سے تیار کردہ مصنوعات بر آمد کرکے اپنا ریکارڈ درست کر لیتے ہیں۔ ایسی کھیپوں کی گڈز ڈکلریشن پر متعدد اپریزنگ افسران کے عتراض کے باجود ان اعتراضات کو مسترد کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے صنعتی یونٹوں کے خلاف صرف ریکوری ہی نہیں، بلکہ کرمنل کارروائی ضروری ہے۔ تاکہ برآمدات میں بدعنوانیوں کے حوالے سے کسٹمز کی رِٹ قائم کی جاسکے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ دو برس میں کلیئر کی جانے والی کھیپوں کی گڈز ڈکلریشن کا آڈٹ کرکے سارے ثبوت اور شواہد آسانی سے جمع کیے جاسکتے ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ گارمنٹس اور ٹیکسٹائل سے منسلک متعدد معروف صنعتی یونٹوں کی جانب سے کی جانے والی برآمدات میں مس ڈکلریشن بھی کی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول مذکورہ دونوں قسم کی برآمدات سے منسلک صنعتوں کے تاجروں کو گرین چینل کی سہولیات میسر ہیں، جن میں پوری کھیپ پر مشتمل کنٹینرز کے بجائے اکا دکا کنٹینرز کی سرعت سے چیکنگ ہوتی ہے۔ تاہم کئی واقعات میں مس ڈکلریشن پکڑے جانے کے باجود معاملات صرف ریکوری تک محدود کر لئے گئے۔ پھر بھی ان معروف صنعتی یونٹوں سے گرین چینل کی سہولت واپس لے کر انہیں ریڈ یعنی سرخ چینل کے سخت چیکنگ کے سسٹم میں نہیں ڈالا گیا۔
واضح رہے کہ گرین چینل کی سہولت ان کمپنیوں کو میسر ہوتی ہے جن کی ساکھ بہترین ہو۔ تاہم کسٹمز ونگ کے رسک منجمنٹ اور آٹو میشن ڈائریکٹوریٹ میں بھی مبینہ طور پر کرپشن کی وجہ سے بڑے صنعتی یونٹ اپنے معاملات طے کرالیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی کھیپوں کے حوالے سے سامنے آنے والے کیسوں کو دبا دیا جاتا ہے۔