امت رپورٹ :
مخصوص نشستوں سے متعلق اہم کیس میں فریق بننے کے لئے درخواست دائر کرنے والی پی ٹی آئی نے چپ سادھ لی ہے۔ نہ وہ حسب عادت فل کورٹ سے یہ درخواست سننے کے لئے اصرار کر رہی ہے اور نہ ہی میڈیا میں اس پر بات کر رہی ہے۔ اگرچہ اس خاموشی کی وجہ بیان نہیں کی گئی، لیکن واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس خاموشی کے پیچھے اکبر ایس بابر کا انتباہ کارفرما ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ فل کورٹ کے سامنے فارن فنڈنگ کیس کا کٹا کھول دیں گے۔
واضح رہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فل کورٹ سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی سماعت کر رہا ہے، جو اس نے پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی تھی، جس میں پانچ رکنی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حکمراں اتحاد اور دیگر پارٹیوں میں تقسیم کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی چونکہ سنی اتحاد کونسل میں ضم ہوچکی ہے لہٰذا تحریک انصاف کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اسی بنیاد پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ تاہم اس کیس کی دو سماعتوں کے بعد اچانک پی ٹی آئی کو خیال آیا کہ اسے بھی اس کیس میں فریق بننا چاہئے۔ چنانچہ بیرسٹر گوہر کی جانب سے یہ درخواست دائر کردی گئی، جس میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد ہے۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا نے تحریک انصاف کے نشان پر ہی الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔چنانچہ بطور فریق پی ٹی آئی کی درخواست بھی سنی جائے۔
پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے باغی بانی رہنما اکبر ایس بابر نے اعلان کیا کہ ’’اگر مخصوص نشستوں کے کیس میں تحریک انصاف کی درخواست بھی سننے کا فیصلہ ہوا تو وہ فارن فنڈنگ کیس کو بھی فل کورٹ میں زیر سماعت لانے کی درخواست دائر کریں گے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے دو اگست کے فیصلے میں ثابت ہوچکا کہ پی ٹی آئی فارن فنڈڈ پارٹی ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں یہ بھی ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی کو سات ملین ڈالرز سے زیادہ کی غیر قانونی اور غیر ملکی فنڈنگ ہوئی۔ پی ٹی آئی قیادت نے ناصرف فارن فنڈنگ کو چھپانے کی کوشش کی بلکہ بانی پی ٹی آئی جعلسازی کے بھی مرتکب ہوئے۔ بھارت سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کے شہریوں سے فنڈنگ لینے کے اصل مقاصد اور عزائم جاننا قوم کا حق ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کو امریکہ، برطانیہ اور بھارتی نژاد ڈونرز کا فنڈنگ کرنا بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ معلوم کرنا ہوگا کہ کیا یہ فنڈنگ پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لئے استعمال ہوئی تاکہ قومی سلامتی کو دائو پر لگایا جائے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کو بڑے پیمانے پر فارن فنڈنگ فراہم کرنے کا مقصد ملکی اداروں کے ساتھ کھلواڑ تو نہیں تھا۔‘‘
اکبر ایس بابر کے اس ہوشربا اعلان کے بعد پی ٹی آئی بظاہر مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنی متفرق درخواست کی پیروی کرنے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ درخواست دائر کرنے کے بعد سے یہ درخواست نہ اب تک فل کورٹ کی جانب سے ٹیک اپ کی گئی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی نے اس کو سننے پر اصرار کیا ہے ۔ حالانکہ گزشتہ سماعت پر فل کورٹ نے بیرسٹر گوہر کو بھی روسٹرم پر بلاکر سنا تھا، لیکن انہوں نے مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق بننے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست سے متعلق ایک لفظ نہیں بولا۔حالانکہ پی ٹی آئی کی عادت ہے کہ وہ کوئی درخواست دائر کردے تو بار بار عدالت کو اس کی یاد دہانی کراتی ہے۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کے وکلا نے حسب عادت جذبات میں آکر مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ۔ حالانکہ اس کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس معاملے میں نہ وہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ میں فریق تھی۔ بنیادی طور پر یہ سنی اتحاد کونسل کا کیس ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی۔ لیکن جب اکبر ایس بابر نے اس کے جواب میں فل کورٹ کے سامنے فارن فنڈنگ کیس اٹھانے کا انتباہ کیا تو پی ٹی آئی پریشان ہوگئی اور اسے یہ خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں ’’نماز بخشوانے گئے تھے ، روزے گلے پڑگئے‘‘ کے مصداق فل کورٹ میں ایک نیا کٹا نہ کھل جائے۔ جس میں مخصوص نشستیں بھی ہاتھ سے نکل جائیں اور ساتھ ہی فارن فنڈنگ کا معاملہ بھی گلے پڑجائے گا، جس پر کافی عرصے سے خاموشی ہے۔ واقفان حال کے مطابق اسی خدشے کے تحت تحریک انصاف مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنی متفرق درخواست کو ’’پرسو‘‘ نہیں کر رہی ہے۔ مخصوص نشستوں کی اگلی سماعت کے موقع پر اگر فل کورٹ خود ہی اس درخواست کو سننے کا فیصلہ کرتا ہے تو الگ بات ہے لیکن فی الحال پی ٹی آئی نے اس درخواست پر خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اکبر ایس بابر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی کی متفرق درخواست سننے کا فیصلہ ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں فارن فنڈنگ کیس سننے کی درخواست بھی دائر کردی جائے گی۔ اس کی تیاری مکمل ہے۔ فل کورٹ کے معزز رکن جسٹس منصور علی شاہ کے بقول مخصوص نشستوں کا معاملہ فرسٹ امپریشن کیس ہے یعنی اس نوعیت کا کیس پہلے کبھی ملکی عدالتوں میں نہیں آیا۔ اسی طرح فارن فنڈنگ کیس بھی فرسٹ امپریشن کیس ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی کسی سیاسی پارٹی پر غیر ملکی فنڈز لینا ثابت نہیں ہوا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کے لئے مقرر ہوتی ہے تو پھر فل کورٹ سے فارن فنڈنگ کیس سننے کی استدعا بھی کی جائے گی اور یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ ایک ایسی پارٹی جس پر فارن فنڈنگ ثابت ہوگئی ہو، کیا وہ الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے؟ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اس حوالے سے آٹھ برس جھوٹ بولا۔ کیا وہ صادق اور امین ہیں؟ ان ذرائع کے بقول مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست سننے کا فیصلہ ہونے پر اکبر ایس بابر خود بخود فریق بن جائیں گے۔ کیونکہ انٹراپارٹی الیکشن میں وہ پہلے ہی فریق ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت سب کی نظریں مخصوص نشستوں سے متعلق اہم کیس پر ہیں، جس کی سماعت سپریم کورٹ کا فل کورٹ کر رہا ہے۔ 9 جولائی (بروز منگل) کی سماعت میں اس اہم کیس کا فیصلہ متوقع ہے۔ اس کیس کے فیصلے کے نتیجے میں موجودہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے، اسی لئے اسے نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی سے قریب رہنے والے ذرائع کے بقول اب ان کی زیادہ دلچسپی اس میں نہیں کہ انہیں مخصوص نشستیں واپس مل جائیں، بلکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح حکمراں اتحاد کو مجوزہ آئینی ترامیم سے روکا جاسکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب سپریم کورٹ کا فل کورٹ، پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے۔ اور اس کے نتیجے میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حکمراں اتحاد کو واپس مل جائیں، جس سے اسے دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی اور وہ مجوزہ آئینی ترامیم کرسکے گی۔ جس کا مسودہ تیار ہے، صرف فل کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اس مجوزہ آئینی ترامیم میں سب سے اہم عدالتی اصلاحات سے متعلق ہیں۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ ان ترامیم کی صورت میں اس کے پر مکمل طور پر کٹ جائیں گے اور حکمراں اتحاد انتہائی مضبوط ہوجائے گا۔