عمران خان
وزیر اعظم کی ہدایات پر حساس اداروں کی معاونت سے ایف بی آر میں آپریشن کلین اپ دوسرے میں مرحلے میں داخل ہو گیا۔ تاہم اس کارروائی کی زد میں کئی اچھے افسران بھی آگئے۔ جب کہ اسمگلنگ کیسوں میں بعض نامزد افسر بچ گئے، جس کی وجہ سے اچھی نیت سے کیا جانے والا آپریشن متنازع ہونے کا خدشہ ہے۔ اب تک ان دو مراحل میں ایف بی آر ان لینڈ ریونیو سروسز اور کسٹمز ونگ کے 22 گریڈ سے 20 گریڈ تک کے ملک بھر میں تعینات 77 اعلیٰ افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کے ایڈمن پول بھیجا جاچکا ہے۔
ان میں سے 50 افسران کو پہلے مرحلے میں رواں برس اپریل کے آخر اور مئی کے شروع میں ایڈمن پول بھیجا گیا تھا۔ جب کہ 27 افسران کو دوسرے مرحلے میں گزشتہ روز جاری نوٹی فیکیشن میں ایڈمن پول بھیجنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ جہاں ان کے حوالے سے بننے والی فائلوں پر مزید انکوائری کی جا رہی ہے۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق ایف بی آر میں بد عنوان اور نا اہل افسران کے خلاف یہ آپریشن آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کی اصلاحات کے لئے دی جانے والی سفارشات کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ تاہم آپریشن کے شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے پر گزشتہ روز جاری ہونے والے نوٹی فیکیشن کے بعد کچھ سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس میں ایسے افسران کو بھی عہدوں سے ہٹاکر ایڈمن پول بھیج دیا گیا ہے جو کہ طویل عرصہ سے قابل ذکر اہم پوسٹوں پر تعینات رہے اور نہ ہی ان کے خلاف ماضی میں شکایات سامنے آئیں۔
ذرائع کے بقول عین اسی وقت کئی ایسے آئی آر ایس اور کسٹمز ونگ کے افسران کو چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ حالیہ دنوں میں ہی حساس اداروں اور ایف آئی اے کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی انسداد کرپشن کی متعدد کارروائیوں کے بعد کراچی، لاہور اور بلوچستان میں درج ہونے والے مقدمات میں نہ صرف نامزد ہوئے بلکہ اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی سرپرستی سے کروڑوں روپے کے اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ کے شواہد سامنے آنے پر ان کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ افسران اب بھی ادھر ادھر تعیناتیوں پر بیٹھے انجوائے کر رہے ہیں۔
ایف بی آر ذرائع کے بقول آئی ایم ایف کی سفارشات اپنی جگہ ہیں۔ چونکہ ان کی وجہ سے حکومت کو ایک سنہری موقع ملا ہے کہ وہ غیر جانب دار اور شفاف کارروائی کرکے تمام تر سیاسی دبائو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایف بی آر جیسے اہم ادارے کو کرپٹ اور نا اہل عناصر سے پاک کردے۔ تاکہ ملکی محصولات بڑھانے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا یہ ادارہ مستحکم ہوسکے۔ تاہم اگر اس موقع کو بھی ضائع کردیا گیا اور بعض عناصر کو اپنی ذاتی پسند نہ پسند کی بنیاد پر قابل افسران کو کھڈے لائن لگانے کی اجازت دے دی گئی، تو پھر اس آپریشن کلین اپ کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق اب تک وزیر اعظم کی بنائی گئی کمیٹی کی جانب سے حساس اداروں کی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر کارروائی کے لئے جن افسران کی فہرستیں وزیر اعظم ہائوس کو ارسال کی گئی ہیں، ان میں کئی ایسے بھی افسران ہیں جنہیں چند ماہ قبل یا سال بھر قبل ہی اگلے گریڈوں میں ترقیاں ملی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر اگلے گریڈوں میں جب بھی ترقیاں دی جاتی ہیں تو ان میں محکمہ جاتی رپورٹوں کے ساتھ ہی حساس اداروں کی رپورٹوں کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے۔ ان رپورٹس میں ان افسران کے رابطوں، اثاثوں اور آمدنی کا تمام ڈیٹا شامل ہوتا ہے۔ اگر اس وقت ان افسران کے حوالے سے حساس اداروں کی رپورٹیں مثبت تھیں اور اس بنیاد پر انہیں ترقیاں ملی ہیں، تو اب اچانک ان کے حوالے سے حساس اداروں کی رپورٹوں میں فرق کیسے آگیا ہے؟
ذرائع کے بقول رواں برس اپریل کے مہینے میں آئی ایم ایف بی سفارشات کی روشنی میں وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر بنائی گئی ایف بی آر چیئرمین امجد ٹوانہ کے ماتحت 6 رکنی ریفارمز کمیٹی نے اپنا کام شروع کیا تھا۔ جس نے ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو سروسز اور کسٹمز ونگ کے 100سے زائد افسران کو عہدوں سے ہٹانے کے لئے ابتدائی فہرست کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیں۔
ذرائع کے بقول مئی کے آغاز میں جب پہلے مرحلے میں 22 سے 21 گریڈ تک کے افسران کی فہرستیں جاری کرکے انہیں ہٹایا گیا تھا، ان میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں کام کرنے والے کئی کمشنر، کلکٹرز، ڈائریکٹریکٹرز، ڈائریکٹر جنرلز، چیف کمشنر، ممبرز وغیرہ شامل تھے۔ اقدامات سے محکمہ میں بڑے پیمانے پر کھلبلی مچ گئی تھی اور دیگر افسران اپنی پوسٹنگ بچانے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگئے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر میں محصولات جمع کرنے کا عمل بھی متاثر ہو رہا تھا۔ چونکہ اس وقت مالی سال اپنے اختتام کے قریب تھا اور جون ختم ہونے میں دو ماہ رہ گئے تھے۔ اس لئے وزیر اعظم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اس وقت پوری فہرست پر عمل کرنے سے ایف بی آر کا انتظامی ڈھانچہ متاثر ہوسکتا تھا۔ اس لئے اس عمل کو 50 ٹرانسفر کرنے کے بعد روک دیا گیا تاکہ مالی سال کا اختتام ہوسکے اور 20 گریڈ کے افسران خود کو بچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ اچھی کارکردگی بھی دکھاسکیں۔
ذرائع کے بقول اب چونکہ مالی سال 2023-24 ختم ہوچکا ہے اور نئے مالی سال 2024-25 کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس لئے آپریشن کلین اپ کے دوسرے مرحلے پر عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ جس میں 20 گریڈ کے 16 ان لینڈ ریونیو سروس اور 11 کسٹمز افسران کے تبادلے کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اب یہ سلسلہ تیسرے اور آخری مرحلے میں آئندہ چند روز میں داخل ہوگا جب 19 اور 18 گریڈ کے افسران کی فہرستیں جاری کرکے انہیں ہیڈ کوارٹرز کے ایڈمن پول روانہ کیا جائے گا۔
اس عمل کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے وزیر اعظم نے موجودہ چیئرمین کو خصوصی ٹاسک دیا۔ امجد ٹوانہ جو ایک ایسے افسر ہیں جن کے اوپر کئی سینئر افسران موجود ہیں۔ تاہم انہیں ترقی دے کر چیئرمین بنایا گیا۔ انہوں نے ایک 6 رکنی کمیٹی بنائی ہے جو کارکردگی اور ماضی کی رپورٹوں کی روشنی میں افسران کی فہرست مرتب کر رہی ہے۔ اس فہرست میں اچھی شہرت کے حامل افسران کو اہم عہدوں پر لگایا جا رہا ہے جبکہ اس کمیٹی کی فہرست میں بری شہرت کے حامل افسران کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ تاہم بعض افسران کا خیال ہے کہ موجودہ چیئرمین ذاتی پرخاش اور پسند نہ پسند پر فہرست بنوا رہے ہیں اور اپنے ماضی کے حساب برابر کر رہے ہیں۔
اگر حالیہ دنوں میں ان کی نشاندہی پر جو 22 اور 21 گریڈ کے افسران ہٹائے گئے ہیں، وہ بری ساکھ والے تھے تو ان کو ترقیاں کیوں دی گئی تھیں۔ اس معاملے میں وفاقی حکومت کو بھی احتیاط کرنی ہوگی اور جلد بازی میں ادارے کو مزید بحرانی کیفیت کا شکار ہونے سے بچانا ہوگا۔