شایان احمد :
امریکی سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ میں ملنے والے نئے سگنل مائیگرین کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے دماغ کا ایک نیا راستہ دریافت کیا ہے، جو سر درد شروع کرنے میں کردار ادا کرتا ہے اور یہ ایسی ہے پیش رفت ہے جو مائیگرین کے علاج کے لئے نئی ادویات بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک شخص مائیگرین کا شکار ہے۔ ایک چوتھائی مریضوں کو ایک جیسی حسی خرابی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں روشنی کی چمک، بلائنڈ اسپاٹ، چبھن کے احساسات اور ہر چیز دوہری نظر آتی ہے اور یہ علامات سر درد سے پانچ سے 60 منٹ پہلے ظاہر ہو سکتی ہیں۔
یہ معلوم ہوا ہے کہ مائیگرین کے پیچھے دماغی سرگرمی کو دبانے کی ایک لہر ہے۔ لیکن صحیح میکانزم ابھی تک پوشیدہ ہے۔ سائنس جرنل میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دماغ میں سیال کا بہاؤ اور سگنل میں خلل کی پھیلتی ہوئی لہر مائیگرین کو متحرک کرتی ہے۔ امریکہ کی روچیسٹر یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج مائیگرین کے علاج کے لئے نئی ادویات کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
تحقیق کے شریک مصنف مائیکن نیڈرگارڈ کا کہنا ہے کہ ’’ان نتائج سے ہمیں مائیگرین کی روک تھام اور علاج اور موجودہ علاج کو بہتر بنانے کے لئے حسی اعصاب کی فعالیت کم کرنے کے لئے متعدد نئے اہداف ملے ہیں‘‘۔
سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ یہ اورا اس وقت ہوتا ہے جب دماغ کے ایک حصے میں آکسیجن کی سطح کم ہو جاتی ہے اور خون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب گلوٹامیٹ اور پوٹاشیم جیسے چارج شدہ مالیکیولز کے پھیلاؤ کی وجہ سے دماغ کے خلیات عارضی طور پر ڈی پولرائزڈ ہوجاتے ہیں۔ یہ خلل ایک لہر کی طرح پھیل سکتا ہے۔ اور جب یہ دماغ کے بصارت پروسیسنگ سینٹر کو متاثر کرتا ہے تو یہ آنے والے سر درد سے پہلے بصری علامات جیسے اورا کا سبب بنتا ہے۔ محققین نے ایک نیا راستہ دریافت کیا ہے۔ جس کے ذریعے یہ سگنل سفر کرتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ان کی یہ دریافت کہ اس راستے میں اعصاب کیسے فعال ہوتے ہیں، ادویات کے نئے اہداف کا باعث بن سکتی ہے۔
تحقیق کے ایک اور مصنف مارٹن کاگ راسموسن کا کہنا تھا کہ ’’شناخت کیے گئے مالیکیولز میں وہ مالیکیولز بھی شامل ہیں۔ جن کا تعلق پہلے ہی مائیگرین سے جڑا ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ کہ مائیگرین پیدا کرنے والا عمل کیسے اور کہاں ہوا‘‘۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ نئی شناخت شدہ ممکنہ ادویات کے اہداف سے بڑی تعداد میں ایسے مریضوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جن پر مائیگرین کے دستیاب علاج کا اثر نہیں ہوتا۔