ارشاد کھوکھر:
مارچ 2024ء میں تیسری بار وزیراعلیٰ سندھ بننے کے فوراً بعد ہی سید مراد علی شاہ کو ہٹوانے کی شروع کی گئی سازشوں کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ناکام بنا دیا ہے۔ اس قسم کی سرگرمیاں بڑھ جانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے تقریباً تین ہفتے قبل صوبائی وزرا کو وزیراعلیٰ ہائوس طلب کر کے ان کی خوب سرزنش کی۔ اور مراد علی شاہ پر مکمل اعتماد کا اظہار ظاہر کیا۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ کو پھر بھی بعض وزرا سے یہ شکایت ہے کہ وہ ان کے احکامات کو اہمیت نہیں دیتے اور متعلقہ محکموں کے کئی امور کے متعلق انہیں آگاہ نہیں کرتے جن میں صوبائی وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار بھی شامل ہے۔ جس کے متعلق نہ صرف وزیراعلی سندھ بلکہ آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن کو بھی تحفظات ہیں کہ سندھ پولیس میں جو تقرری و تبادلے ہورہے ہیں ان کے متعلق صوبائی وزیر داخلہ ان سے مشاورت نہیں کرتے۔ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سید مراد علی شاہ کے خلاف سازشیں ناکام بنانے کے بعد پارٹی میں ان سے بھی زیادہ مضبوط پوزیشن رکھنے والی ایم پی اے فریال تالپور کو وزیراعلیٰ سندھ کے امیدوار کے طور پر آگے لانے کے خواہش مند ہیں۔
مارچ 2024ء میں سید مراد علی شاہ جب تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ منتخب ہوئے تو اس کے فوری بعد میڈیا میں ان خبروں کی بھرمار شروع ہو گئی کہ سید مراد علی شاہ اس مرتبہ محدود مدت کے لیے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں اور اس مرتبہ وہ پانچ برس کے لیے وزیراعلیٰ نہیں بنیں گے۔ جس کے لیے یہ تاثر بھی عام تھا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی اکثریت سید مراد علی شاہ کے بجائے اس مرتبہ سید ناصر حسین شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ بنوانا چاہتی تھی۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کے ڈٹ جانے کے باعث سید مراد علی شاہ فی الحال وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد تبدیلی ضرور آئے گی۔ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سید ناصر حسین شاہ کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات و آبکاری و محصولات شرجیل انعام میمن، ناصر حسین شاہ سے بھی زیادہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار سمجھے جارہے تھے اور ایسی خبروں کو تقویت اس سے بھی ملی کہ جب صوبائی کابینہ کا عمل وجود میں آیا تو وزیراعلیٰ سندھ کے دو پسندیدہ محکموں جن کے انتظامی و ٹیکنیکل امور پر عبور رکھتے ہیں ان محکموں میں سے ایک محکمے، محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کا قلمدان ناصر حسین شاہ کے سپرد کیا گیا۔
اس وقت یہ تاثر بھی عام تھا کہ شاید وزیراعلیٰ سندھ کے پاس اس مرتبہ محکمہ خزانہ کا قلمدان بھی نہ رہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ صوبائی محکمہ داخلہ کا قلمدان بھی اکثر وزیراعلیٰ سندھ کے پاس رہا ہے لیکن اس مرتبہ مذکورہ محکمہ کے لیے ضیاالحسن لنجار الگ وزیر بن گئے۔ اور یہ خبریں صرف افواہوں پر مبنی نہیں تھیں بلکہ سندھ کی بیوروکریسی سمیت پیپلزپارٹی کے حلقوں میں بھی ناصر حسین شاہ اور شرجیل انعام میمن کی سید مراد علی شاہ سے دوری یا ان کے درمیان پہلے جیسے تعلقات نہ ہونے کو محسوس کیا جارہا تھا۔ جس سے وزیراعلیٰ سندھ کی بھی بے چینی دن بدن بڑھ رہی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اس تمام تر صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔ جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ڈھائی تین ہفتے قبل صوبائی وزرا کو وزیراعلیٰ ہائوس طلب کر کے ان پر واضح کر دیا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف خصوصاً سید مراد علی شاہ کو ہٹانے کے حوالے سے میڈیا میں جو تاثر پایا جاتا ہے اس کو ابھارنے کے بجائے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مذکورہ اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے خود کئی صوبائی وزرا کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے تھے اور انہیں سختی سے ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور اس وقت تمام تر صورت حال کو وہ خود مانیٹر کررہے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ تو پہلے ہی مایوس ہو چکے تھے کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ نہیں بن سکتے تاہم شرجیل انعام میمن کی جستجو جاری تھی لیکن بلاول بھٹو زرداری کے مذکورہ اجلاس کے بعد شرجیل انعام میمن بھی دھیمے پڑ گئے ہیں۔ یوں سید مراد علی شاہ کو ہٹوانے کے متعلق پس پردہ جو سرگرمیاں ہورہی تھیں انہیں بلاول بھٹو زرداری نے فی الحال ناکام بنا دیا ہے۔
2 جولائی کو حکومت سندھ کی جانب سے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے 6 افراد جن میں بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ، سسی پلیجو کے بھائی سرمد پلیجو، عبدالواحد ہالیپوٹو، مخدوم فخرالزماں، محمد علی راشد اور ساجدہ جاوید کو حکومت سندھ کا اسکوپ مین (ترجمان) مقرر کرنے کے جاری کردہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس نوٹیفکیشن کو بھی اہمیت دی جارہی ہے۔ اور یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ مذکورہ نوٹیفکیشن کا مقصد صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کو بھی جھٹکا دینا تھا۔ کیونکہ جہاں تک صوبائی وزیر اطلاعات کی بات ہے تو وہ پوری صوبائی حکومت کے ترجمان ہوتے ہیں۔
ایسی نوبت کیوں آئی کہ چھ الگ سے ترجمان مقرر کیے گئے۔ تاہم اعلیٰ سطح کے صوبائی ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ ان چھ شخصیات کو صوبائی حکومت کا ترجمان مقرر کرنے کا مقصد کسی کو جھٹکا دینا نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی تشہیری مہم کو بہتر بنانا ہے۔ اس کے علاوہ 2 جولائی کو ہی ایک اور نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا مذکورہ نوٹیفکیشن کے مطابق سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے سرفراز راجڑ، ایم این اے نوید قمر کے بیٹے قاسم نوید قمر، پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی، راجور سنگھ سوڈھا، منصور علی شاہانی، عثمان غنی، یعقوب ہنگورو، حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے عبدالجبار خان، میرپورخاص سے تعلق رکھنے والے جنید بلند اور محمد سلیم بلوچ کو وزیراعلیٰ سندھ کا معاونین خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ مذکورہ معاونین خصوصی میں سے سب کی خواہش ہے کہ اسائنمنٹ کے طور پر ہی صحیح انہیں بھی مختلف محکموں کے قلمدان سونپے جائیں۔ تاہم دو، تین روز قبل ضلع دادو میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے جب سوال ہوا تو انہوں نے دوٹوک کہہ دیا کہ نہ کوئی صوبائی کابینہ میں تبدیلی ہے اور نہ ہی کسی وزیر کے قلمدانوں میں تبدیلی ہورہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سید مراد علی شاہ کے خلاف جو لابی ہے وہ سمجھتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے اتنے اعتماد کے باعث سید مراد علی شاہ کو وزارت اعلیٰ ہٹوانا آسان کام نہیں ہو گا۔ اور انہیں اس صورت میں ہی عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے جب پارٹی کے اندر اس سے بھی زیادہ کوئی طاقتور شخصیت امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور وہ شخصیت صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور بلاول بھٹو زرداری کی پھپھو فریال تالپور ہی ہو سکتی ہیں۔ اور اس سلسلے میں شاید بلاول بھٹو زرداری کو قائل کرنا آسان ہو سکے۔
مراد علی شاہ کے خلاف جو لابی سرگرم رہی ہے اس کے پاس یہ دلیل بھی ہے کہ کارکردگی کے حوالے سے حکومت سندھ کا مقابلہ حکومت پنجاب سے ہے۔ جب مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب بن سکتی ہے تو فریال تالپور وزیراعلیٰ سندھ کیوں نہیں بن سکتی اور ان کے وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں تمام معاملات ان کے کنٹرول میں ہوں گے۔ جب ان معاملات کے کنٹرول کی بات ہے تو وہ تو ابھی بھی تقریباً انہی کے کنٹرول میں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سید مراد علی شاہ کے خلاف جو لابی ہے اس میں یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے۔ تاہم پارٹی کے اندر اس سلسلے میں تاحال عملی طور پر کوئی غور بچار نہیں ہورہا۔ اس نوعیت کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں تو اس کے متعلق حتمی مشاورت صدر مملکت آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور کے درمیان ہی ہوتی ہے۔