محمد قاسم :
حکومت کی جانب سے تمباکو پر عائد ٹیکسز میں اضافے کے بعد نسوار کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ پشاور میں نسوار کی ایک پڑیا جو 10 سے 15 روپے میں فروخت ہو رہی تھی۔ اس کی قیمت 30 روپے تک جا پہنچی ہے۔ جبکہ باڑہ کی اعلیٰ قسم کی نسوار 40 روپے میں فروخت کی جانے لگی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق صوبائی حکومت نے رواں سال بجٹ میں جہاں متعدد اشیا پر ٹیکس عائد کیے۔ وہیں تمباکو پر عائد ٹیکس میں 400 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ان ٹیکسوں کے نفاذ سے صوبائی حکومت کو آمدن میں چار سو سے پانچ سو فیصد اضافے کی توقع ہے۔ یعنی آمدنی میں ڈھائی سے تین ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔ تمباکو پر ٹیکس ڈھائی فیصد سے بڑھا کر سات فیصد کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد نسوار کی قیمت بھی مزید بڑھ گئی ہے۔ واضح رہے کہ نسوار ایسا نشہ بن چکا ہے کہ دن میں تین سے چار پڑیوں کا استعمال عام ہے۔
پشاور میں ایک اندازے کے مطابق 25 سے 30 فیصد لوگ نسوار استعمال کر رہے ہیں۔ اس لت میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی مبتلا ہو رہی ہے۔ سوات، چارسدہ، نوشہرہ، مردان، صوابی، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان، دیر اپر، لوئر اور شانگلہ سمیت دیگر اضلاع میں ہر تیسرا چوتھا شخص نسوار کی لت میں مبتلا ہے۔ لوگ ذہنی تنائو سے نجات اور سکون کیلئے بھی نسوار استعمال کر رہے ہیں۔ نسوار دانتوں کی خرابی سمیت بہت سی بیماریوں کا موجب ہے۔ لیکن اس کے باوجود صوبہ بھر میں اس کا استعمال عام ہے۔
پشاور میں نسوار کے کاروبار سے وابستہ دکاندار محمد رحیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب انہوں نے نسوار کا کاروبار شروع کیا تھا تو اس کی قیمت ایک روپے تھی اور اب بڑھتے بڑھتے 30 روپے تک جا پہنچی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ کاروبار بھی تباہی سے دوچار ہونے لگا ہے۔ پچھلے سال بھی تمباکو پر ٹیکس عائد کر کے نسوار مہنگی کی گئی اور اب پھر سے ٹیکسز میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ایک غریب بندہ بھی آسانی سے دن میں تین سے چار پڑیاں نسوار خرید لیتا تھا۔ لیکن اب مہنگائی اتنی بڑھ چکی کہ ایک شہری دن میں ایک یا دو پڑیا ہی خریدتا ہے۔ پہلے یومیہ 20 سے 30 ہزار روپے تک کی سیل ہوتی تھی۔ اب بمشکل 5 ہزار روپے کی نسوار بھی فروخت نہیں ہورہی۔ باڑہ کی مشہور نسوار کی قیمت بھی بڑھ کر 40 روپے تک جا پہنچی ہے ۔ایسے میں کاروبار چلانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس عائد کیے جانے سے پہلے 30 کلو کا تھیلا 1800 روپے میں ملتا تھا۔ اب اس کی نئی قیمت ڈھائی ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے بھی مجبوراً قیمتوں میں اضافہ کیا۔ پشاورکے شہری علاقہ ہشت نگری سے تعلق رکھنے والے محمد سلیم نے بتایا کہ جب تک ان کے منہ میں نسوار نہ ہو۔ وہ بے سکون رہتے ہیں۔ اس لئے ان کیلئے نسوار چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ نسوار کا استعمال کم بھی نہیں کر سکتے۔ حکومت بڑی چیزوں پر چاہے جتنے ٹیکس عائد کرے۔ کم از کم نسوار میں استعمال ہونے والے تمباکو پر ٹیکس ختم کیے جائیں۔
محمد سلیم زری کا کا م کرتے ہیں اور دن میں پانچ سے چھ پڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نسوار جہاں دانتوں کو خراب کرتی ہے۔ وہیں منہ میں بدبو کے علاوہ کئی بیماریوں کا سبب بھی ہے۔ واضح رہے کہ پشاور کے مسافر اڈوں پر نسوار کی درجنوں دکانیں تھیں۔ لیکن قیمتوں میں وقتاً فوقتاً اضافے کے بعد سے یہ دکانیں کم ہونا شروع ہو گئیں اور اب یہ کاروبار تباہی کے دہانے پر ہے۔
حاجی کیمپ اڈہ کے باہر نسوار کا کاروبار کرنے والے رحمت اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پنجاب سمیت ملک کے دیگر شہروں کو جانے والے افراد ان سے ہزاروں روپے کی نسوار خرید کر لے جاتے تھے۔ خاص کر باڑہ کی نسوار بہت مقبول تھی۔ لیکن قیمتوں میں اضافہ ہونے سے گاہک کم ہو گئے ہیں۔ اس لئے نسوار کے ساتھ ساتھ اب دیگر اشیا بھی فروخت کیلئے رکھ لی ہیں۔