سید حسن شاہ :
جیلوں سے قیدیوں کی متعلقہ عدالتوں میں آن لائن پیشی شروع کردی گئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نصف سے زائد قیدی آن لائن پیش ہوتے ہیں۔ مذکورہ اقدامات سیکورٹی خدشات اور خطرناک قیدیوں کا عدالتوں سے فرار ہونے کے واقعات کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔ اس سے قبل روزانہ کراچی کی مختلف جیلوں سے ایک ہزار قیدی پیشی پر سٹی کورٹ لائے جاتے تھے۔ اب محض 500 قیدیوں کو پیشی کیلئے لایا جارہا ہے۔ سٹی کورٹ میں نیٹ ورک نہ ہونے سے سیکیورٹی افسران سے رابطے کا فقدان بھی بڑھ گیا ہے۔
کراچی کی جیلوں میں مختلف مقدمات میں بند قیدیوں کی متعلقہ عدالتوں میں آن لائن حاضری کا نظام شروع ہونے سے سٹی کورٹ میں سیکورٹی کے مسائل میں کمی آگئی ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی ہدایت پر جیلوں میں زیر سماعت مقدمات میں بند قیدیوں کی متعلقہ عدالتوں میں آن لائن حاضری کا نظام شروع کیا گیا ہے۔ اس سسٹم کے تحت قیدیوں کو جیلوں سے متعلقہ عدالت پیشی کیلئے لیکر آنا نہیں پڑتا۔ بلکہ جیل انتظامیہ آئن لائن قیدیوں کی پیشی کرادیتی ہے۔ جس کی وجہ سے قیدیوں کی سیکورٹی، ان کو جیلوں لانے اور لے جانے کے اخراجات بھی بچ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سٹی کورٹ میں قیدیوں کو سنبھالنے کیلئے نفری کی کمی کا بھی سامنا تھا۔ اب یہ مسئلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق سٹی کورٹ میں سینٹرل، لانڈھی، خواتین اور بچہ جیلوں سے روزانہ تقریبا 500 قیدیوں کو پیشی کیلئے لایا جاتا ہے۔ سینٹرل جیل کے278، لانڈھی جیل کے172، ہائی پروفائل 80، خواتین جیل کی 20، بچہ جیل کے50 قیدی پیشی کیلئے لائے جاتے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں، کالعدم تنظیموں کے خطرناک اور کئی مقدمات میں نامزد ہائی پروفائل قیدیوں کو بھی جیلوں سے لایا جاتا ہے۔ مذکورہ قیدیوں کے خلاف شہر کے مختلف تھانوں میں سنگین جرائم کے ایک سے زائد مقدمات درج ہیں۔ ملزمان کو جیل وین اور دیگر گاڑیوں میں سٹی کورٹ کے لاک اپ (بخشی خانہ) میں لایا جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سینٹرل جیل سے 8 گاڑیوں، ملیر جیل سے7 گاڑیوں، ماڈل کورٹس کے قیدیوں کی ایک گاڑی، کم عمر قیدیوں کی ایک گاڑی اور خواتین قیدیوں کی ایک گاڑی کے ذریعے ملزمان کو سٹی کورٹ کے لاک اپ میں پہنچایا جاتا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی کے سبب سٹی کورٹ سے قتل سمیت متعدد مقدمات میں گرفتار 12 قیدی فرار ہوچکے ہیں۔ مفرور قیدیوں میں نوجوان گولڈ میڈلسٹ اتقا کے قتل کیس میں گرفتار ہائی پروفائل ملزم ظاہر علی بھی شامل ہے۔ جو سٹی کورٹ سے پولیس اہلکاروں کو چکمہ دیکر فرار ہوا تھا۔ اس پر معاملے پر ذمہ دار کانسٹیبل اشتیاق احمد کو گرفتار کر کے اس کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اسی طرح قتل اور غیر قانونی اسلحے کے مقدمات میں پیشی پر آنے والے دو ملزمان اکرام اور ایاز عرف شنکر بھی فرار ہوئے تھے۔ جس پر سٹی کورٹ لاک اپ کے دو اے ایس آئی رسول بخش اور اخلاق کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اسی طرح دعا منگی کیس کا ملزم زوہیب قریشی بھی فرار ہوا تھا۔ جس پر ہیڈ کانسٹیبل محمد نوید اور حبیب ظفر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ قتل اور اسلحہ برآمدگی کے مقدمات میں نامزد قیدی ملک الطاف اور طارق بھی فرار ہوچکے ہیں۔ جس پر پولیس اہلکاروں عالم زیب اور شوکت کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
دھوکہ دہی کے مقدمہ میں قید دو سگے بھائی محمد امین اور محمد اسماعیل بھی فرار ہوچکے ہیں۔ مختلف نوعیت کے 17 مقدمات میں نامزد قیدی آصف بھی فرار ہوچکا۔ غفلت برتنے والے 3 پولیس اہلکاروں عبدالرؤف، فہد اور خضر حیات کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ منشیات فروشی میں ملوث ملزم نور علی بھی فرار ہوچکا۔ جس پر پولیس اہلکار اختر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ قتل کے مقدمہ میں بند شوکت بھی فرار ہوچکا۔ جس پر غفلت و لاپرواہی برتنے والے اے ایس آئی رمضان، ہیڈ کانسٹیبل غلام مصطفیٰ اور کانسٹیبل ایوب کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
سٹی کورٹ کے لاک اپ انچارج محمد شاہد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جیلوں سے قیدیوں کی آن لائن حاضری کا سسٹم شروع ہونے سے مشکلات کافی کم ہوئی ہیں اور کافی فرق بھی آیا ہے۔ جبکہ رسپانس بھی اچھا مل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ نفری کو پیشی کیلئے آنیو الے باقی قیدیوں کو سنبھالنے میں بھی آسانی ہوگئی ہے۔ تاہم سٹی کورٹ کے لاک اپ میں نیٹ ورک کا بہت مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے اہلکاروں یا پھر اعلیٰ افسران سے رابطہ بہت مشکل ہوجاتا ہے۔