اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ فیصلہ5-8 کی اکثریت کا ہے ، منصور علی شاہ سے کہوں گا وہ فیصلہ سنائیں، فیصلہ منصور علی شاہ نے لکھا ہے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 13 رکنی لارجر بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔
تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی حقدار ہے ، پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کیلیے اپنے امیدواروں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے۔
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور جماعت پی ٹی آئی قرار دیدیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، سنی اتحاد کونسل نے 2024 کا الیکشن نہیں لڑا۔
عدالت نے 13مئی کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان سے محروم رکھ کر کسی پارٹی کو انتخابی عمل سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے۔27جون کو الیکشن کمیشن نے ایک آرڈر پیش کیا، اس دستاویز میں کہا گیا کہ کچھ کاغذات نامزدگی ایسے تھے جن کی پارٹی وابستگی تھی۔ 80میں سے 40 افراد 15 دنوں میں طے کریں کہ کس جماعت سے تعلق رکھنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے ، انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔انتخابی نشان لینے سے کسی سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا ، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پنجاب خیبر پختون خوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں ، تحریک انصاف 15 روز میں مخصوص نشستوں کیلئے اپنے امیدواروں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین تحریک انصاف کا حلف نامہ جمع کرائیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ انتخابی نشان سے محرومی کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں کرتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے۔ پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔
چیف جسٹس اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی۔ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی۔ آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔
سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ میں منصور علی شاہ، اطہر من اللہ، شاہد وحید، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، حسن اظہر رضوی، عرفان سعادت نے تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں دینے کے حق میں رائے دی جبکہ پانچ ججز نے مخالفت کی جن میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
سپریم کورٹ نے 9 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔