محمد اطہر فاروقی :
سندھ بھر میں نگلیریا کے کیسز میں اضافے ہو رہا ہے۔ جولائی میں اب تک 3 افراد نگلیریا سے انتقال کرچکے۔ 2 کا تعلق کراچی اور ایک کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ گرمیوں میں کیسز کے اضافے کی بنیادی وجہ فارم ہائوسسز، سوئمنگ پول اور تالاب وغیرہ میں نہانے کی ہے۔ ایسا میٹھا پانی جس کو کلورین سے صاف نہ کیا گیا ہو، اس میں ’’امیبا‘‘ پایا جاتا ہے۔
12 سال میں صوبے میں 100 مریض رپورٹ ہوئے جس میں سے محض ایک مریض 3 ماہ تک زندہ رہا۔ ماہرین صحت کے بقول نگلیریا وائرس ناک میں پانی داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ چاہئے نہانے کے دوران یا وضو کے دوران ناک میں پانی گیا ہو۔ بچاؤ کا واحد طریقہ یہی ہے کہ پانی کو تسلی سے چیک کر لیں کہ اس میں کلورین کی گولیاں ڈال کر صاف کیا گیا ہے یا نہیں۔ نگلیریا میں مبتلا افراد میں سے 75 فیصد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
کراچی سمیت صوبے بھر میں نگلیریا کے کیسز رپورٹ ہونے شروع ہو گئے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ماہرین کے بقول گرمی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ گرمیوں میں اکثر و بیشتر عوام تالاب، سوئمنگ پول اور فارم ہائوسسز میں نہانے کے لئے جاتے ہیں، جس سے پانی ان کے ناک میں داخل ہوتا ہے اور امیبا ہونے کی وجہ سے وہ نگلیریا وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق نگلیریا فولیری سے کراچی میں 2 اور حیدرآباد میں 1 شخص کا انتقال ہوا ہے۔ نگلیریا فولیری سے پہلا انتقال 5 جولائی کو کورنگی کراچی کے رہائشی شخص کا ہوا جبکہ 11 جولائی کو ملیر کراچی کا نوجوان جناح اسپتال میں نگلیریا فولیری سے انتقال کر گیا۔ 22 سالہ اورنگزیب 7 جولائی کو دوستوں کے ساتھ پکنگ پر گیا تھا۔ تمام دوست قائد آباد کے ایک فارم ہائوس کے سوئمنگ پول میں نہائے بھی تھے، جس کے بعد 8 جولائی کو اورنگزیب کو بخار، سر درد اور الٹیوں کی شکایات ہوئیں اور 10 جولائی کو اورنگزیب کو جناح اسپتال کے ایمرجنسی میں لایا گیا۔
حیدرآباد کا 35 سال کا شخص بھی نیگلیریا فولیری سے کراچی کے اسپتال میں چل بسا۔ سندھ میں 12 سال میں نیگلیریا کے 100 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں صرف 1 مریض 3 ماہ زندہ رہا۔ قومی ادارہ صحت کی ایڈوائزری کے مطابق پاکستان میں نگلیریا وائرس کے کیسز اور اموات 2008ء سے رپورٹ ہو رہی ہیں، یہ کیسز کراچی سمیت مختلف شہروں سے رپورٹ ہوئے۔ نیگلیریا فولیری خاص قسم کے امیبا سے لاحق ہونے والا انفیکشن ہے۔ تیز بخار، سردرد، قے، گردن میں کھچائو اس وائرس کی علامات ہیں۔ اس کی آخری کلینیکل اسٹیج پر مریض کوما میں چلا جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ نگلیریا ایک ایسا امیبا ہے جو ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہو جائے تو دماغ کو پوری طرح چاٹ جاتا ہے، جس سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ وائرس عام طور پر سوئمنگ پولز اور تالاب سمیت ٹینکوں میں موجود ایسے پانی میں پیدا ہوتا ہے جس میں کلورین کی مقدار کم ہوتی ہے۔ شدید گرمی بھی نگلیریا کی افزائش کا سبب بنتی ہے۔ طبی ماہرین نگلیریا کو خاموش قاتل قرار دیتے ہیں کیونکہ اس نے اب تک دنیا میں ہزاروں افراد اس کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
’’امت‘‘ کو سندھ گورنمنٹ سروسز اسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سکندر اقبال نے بتایا کہ گرمی کے موسم میں عوام زیادہ تر فارم ہائوسسز اور سوئمنگ پولز میں نہانے کے لئے جاتے ہیں جہاں پانی میں کلورین کی مقدار کم یا بالکل نہیں ہوتی ہے جس سے پانی ناک میں داخل ہوتا ہے اور نگلیریا کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نیگلیریا عام طور پر تازہ پانی، جھیلوں، ندیوں اور گرم چشموں میں پایا جاتا ہے۔ نگلیریا کی صرف ایک نسل نیگلیریا فولیری انسانوں کو متاثر کرتی ہے۔ نیگلیریا وائرس ناک کے ذریعے داخل ہوکر دماغ کو کھا جاتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق تیراکی اورغوطہ خوری کے دوران نگلیریا انسانی جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔
نگلیریا کی علامتیں 7 دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔ جبکہ نگلیریا کی علامتیں گردن توڑ بخار سے ملتی جلتی ہیں۔ اس کی علامات میں سر میں تیز درد، متلی یا الٹیاں، گردن اکڑ جانا اور جسم کو جھٹکے لگنا شامل ہیں۔