عمران خان :
ایل پی جی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ مکس کرکے فروخت کئے جانے کے انکشاف پر وفاقی ادارے ملوث گروپوں کے خلاف متحرک ہوگئے ہیں۔ اوگرا کی جانب سے کسٹمز کے مختلف کلکٹریٹس کو بھی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ان گروپوں کے خلاف موثر کارروائیاں کریں۔
اس نیٹ ورک نے پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں بشمول، صادق آباد ، ملتان ریجن، جیکب آباد، گھوٹکی، سکھر اور پنو عاقل وغیرہ میں ٹھکانے قائم کر لئے ہیں۔ ایران سے اسمگل ہو کر آنے والی زہریلی سستی گیس کو در آمد ہو کر آنے والی مہنگی ایل پی جی گیس کے ساتھ مکس کرکے مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا۔ اب تک اوگرا کی ٹیموں کی ہنگامی کارروائیوں میں 4 ایسے گروپوں کی نشاندہی ہوچکی ہے جن کے خلاف ٹیسٹنگ کے بعد مقدمات درج کروائے جاچکے ہیں۔
واضح رہے کہ ایل پی جی گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات میں بھی اسی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ایل پی جی انتہائی آتش گیر گیس ہے جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ملاپ سے مہلک خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں ماحولیات پر منفی اثرات بھی شامل ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں ایل پی جی کے مقابلے میں زیادہ پریشر ہوتا ہے۔ جو سنگین حفاظتی خدشات کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ ایل پی جی کے لئے تیار کردہ سامان بشمول سلنڈر وغیرہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے لئے مناسب طریقے سے کام نہیں کرتا۔
ذرائع کے مطابق اس دھندے میں ملوث نیٹ ورک روزانہ کی بنیاد پرلاکھوں روپے اور ماہانہ بنیادوں پرکروڑوں روپے کی ناجائز آمدنی بٹور رہے ہیں ۔ اربوں روپے کے اس دھندے میں جہاں متعدد سرکاری اداروں کے افسران اور اہلکار سہولت کاری کر رہے ہیں وہیں بلوچستان کے راستے ایران سے زہریلی گیس اسمگل کرکے لانے والی کمپنیاں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں زہریلی ایل پی جی درآمد کی جارہی ہے، مضرصحت گیس 15 روپے کلو میں درآمد کی جاتی ہے۔ مضر صحت گیس کا پریشر بڑھانے کیلئے کاربن ڈائی آکسائیڈ مکس کی جاتی ہے، جس کی مکسنگ سے سلنڈر پھٹنے کے حادثات تواتر سے ہورہے ہیں۔ زہریلی ایل پی جی کا سلنڈر 250 سے 280 روپے میں فروخت ہورہا ہے، پڑوسی ملک کی بین شدہ 5 ریفائنریوں سے زہریلی ایل پی جی آرہی ہے۔
اس معاملے سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایران سے اسمگل اور در آمد ہوکر آنے والی ایل پی جی کی ناقص گیس کی سپلائی کو روکنا ممکن نہیں ہے تو کم از کم سرحدی چیک پوسٹوں اور کسٹمز پوائنٹس پر ایل پی جی کی ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹریاں قائم کی جائیں۔ جہاں فوری طور پر ان کے نمونے چیک کرکے اس گیس کو پاکستان میں آنے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح سے پورے ملک میں چھاپے مار کر ملزمان کو پکڑنے، ان پر مقدمات درج کرنے کی محنت سے بچا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں یہ گیس سپلائی ہونے کے بعد ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کردی جاتی ہے جبکہ کسٹمز اور اوگرا کے مختلف فیلڈ فارمیشنز کے پاس اتنی افرادی قوت اور وسائل ہی نہیں کہ وہ مختلف شہروں اور دو دراز علاقوں میں ان کے ڈمپنگ پوائنٹس پر چھاپے مار کر ان گروپوں کے خلاف 100فیصد یقینی کارروائیاں کرسکیں۔
گزشتہ ہفتے کے دوران اس حوالے سے اوگرا کی جانب سے حتمی ایکشن لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بعد سکھر اور پنوعاقل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ایل پی جی میں ملانے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ جہاں پر پنوعاقل کے اسسٹنٹ کمشنر نے چار مقامات پر چھاپے مار کر ان غیر قانونی سرگرمیوں کا سراغ لگاکر تمام مقامات کو فوری طور پر سیل کرتے ہوئے مقدمہ درج کرادیا۔ اوگرا کی انفورسمنٹ ٹیم نے پنو عاقل میں ایل پی جی سائٹس کا معائنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام سائٹس غیر قانونی اور غیر محفوظ حالات میں چل رہی ہیں۔ مناسب ایل پی جی ٹینکوں کے بجائے اسٹوریج کے لئے ایل پی جی باؤزر کا استعمال کیا جارہا تھا اور غیر معیاری آلات پائے گئے تھے۔ ان کارروائیوں کی رپورٹ اوگرا کے ہیڈ آفس کو ارسال کی گئیں۔
ذرائع کے مطابق اس کے ساتھ ہی اس معاملے میں ایران سے اسمگل اور در آمد ہو کر آنے والی زہریلی گیس کا پہلو سامنے آنے کے بعد اوگرا حکام کی جانب سے کسٹمز حکام کو بھی اس ٹاسک میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی جانب سے کیماڑی کے علاقے جیکسن میں قائم ایک ایل پی جی سپلائی کمپنی کے خلاف حوالہ ہنڈی میں ملوث ہونے کی اطلاعات پر کارروائی کی گئی تھی۔ اس کارروائی کے دوران ایف آئی اے ٹیم پر حملہ کردیا کے کارروائی کو ناکام بنا دیا گیا تھا تاہم ایف آئی اے کی ٹیم کچھ ریکارڈ قبضے میںلینے میں کامیاب ہوگئی تھی ۔ا
س ریکارڈ سے معلوم ہوا تھا کہ مذکورہ کمپنی ایران سے بڑے پیمانے پر ایل پی جی کی غیر قانونی در آمد میں ملوث پائی گئی تھی جو کہ بغیر کسی ٹیسٹنگ کے پاکستان بھر میں سپلائی کی جا رہی ہے۔ اس گیس کے لئے ادائیگیاں بھی غیر قانونی طریقے سے کی جاتی رہیں۔ تاہم کارروائی کے بعد کمپنی کے خلاف معاملے کو انکوائری میں رکھ لیا گیا تاکہ شواہد جمع کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکے جبکہ کمپنی مالکان اور ملازمین کے خلاف جیکسن تھانے میں ایف آئی اے ٹیم پر حملہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کروادیا گیا تھا۔